یوم شہداء 13نومبر کے فیصلے کا پس منظر
تحریر۔ سلام صابر
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں ترقی ہو یا تخریب ان سب کی علت و سبب ہمیشہ فرد، تنظیم، جماعت یا ممالک کے مثبت یا منفی فیصلوں سے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی فردہو یا تنظیم آج جس مقام پہ کھڑی ہو، وہ ان کے شعوری یا لاشعوری فیصلوں ہی کا حاصل ہوتا ہے۔
سیاسی کارکنوں کا آپسی بحث و مباحثہ ہو یا ادیبوں و شعراء کی ادبی و علمی خدمات یا معاشی ماہرین کی انتھک عرق ریزیاں سب اپنی تئیں ترقی و تبدل کا احتمال رکھتی ہیں، لیکن جو عمل سب سے زیادہ دنیا اور اردگرد کے حالات پر اثرانداز ہوتی ہے، وہ جماعت، ریاست اور تنظیموں کے فیصلے ہوتے ہیں۔
دو ہزار چھ کو بی ایس او کے تینوں دھڑوں کے انضمام کے بعد پہلے منعقدہ کونسل سیشن میں جب بشیر زیب چیئرمین منتخب ہوئے تواس کے بعد تنظیمی سرکلوں میں اکثر اوقات مختلف موضوعات اور مسائل پہ گفتگو اور بحث و مباحثے کے علاوہ تین باتوں کو زیادہ ہی زیر بحث لایا جاتا تھا۔
اول: تمام شہداء کیلئے ایک دن مخصوص کرنا۔
دوئم: تنظیمی سرگرمیوں میں شہداء کے علاوہ کسی زندہ شخصیت کی تصویر آویزاں نہ کرنا۔
سوئم: جنگ کے میدان میں دشمن کے خلاف برسرپیکار سرمچاروں کی حمایت میں عوام میں مزید بیداری پیدا کرنے کیلئے ریلیوں کا انعقاد۔
اسی مد میں دو ہزار چھ 20 نومبر کو پریس کلب کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین بشیر زیب و بی ایس او کے دیگر مرکزی دوستوں نے اعلان کیا تھا کہ بی ایس او بلوچ سرمچاروں کی حمایت میں جلسے جلوس اور ریلیوں کا انعقاد کرے گی۔
پہلے دو فیصلوں یعنی شہداء کیلئے ایک دن کاانتخاب اور پروگراموں میں شخصیات کی تصاویر آویزاں نہ کرنے کے حوالے سے تنظیم کے دوستوں نے شروع میں مخالفت کی کہ اس طرح خود بی ایس او کی سیاسی سرگرمیاں محدود ہوجائینگی کیونکہ اس وقت تنظیم کی زیادہ تر سرگرمیاں شہداء کے برسیوں کی مناسبت سے ہوتے تھے، اور دوسری طرف شخصیات کی تصاویر نہ لگانے پر دوستوں کو یہ خدشہ تھا کہ قومی جہد سے وابستہ بہت سے شخصیات کو بی ایس او کا یہ فیصلہ ہضم نہیں ہوسکے گا۔
تواتر کے ساتھ ان دو فیصلوں کے حوالے سے تنظیم کے اندر ہی راہ ہموار کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اسی دوران 2008کے کونسل سیشن میں جب بشیر زیب دوبارہ چیئرمین منتخب ہوئے تو اس بابت دوبارہ دوستوں کو گوش گزار کیا گیا کہ شہداء کے بابت ایک مخصوص دن کا انتخاب کیا جائے۔
تب جاکر 2010 کے شروعات میں کراچی میں منعقدہ مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں باقاعدہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 13 نومبر جو کہ بلوچ تاریخ میں ایک خاص اہمیت بھی رکھتا ہے اس دن کو شہداء کے دن کے مناسبت سے منایا جائے گا۔
بی ایس او آزاد کا یہ فیصلہ بلوچ قومی جہد کے قابل قدر اور مثبت فیصلوں میں شامل ہوتا ہے۔ بی ایس او آزاد کے قیادت کو یہ طرہ امتیاز حاصل ہے کہ اس جماعت نے کئی ایسے انقلابی اور غیر روایتی فیصلے کیئے جس نے بلوچ سیاست خاص طور پر بلوچ طلباء سیاست میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں، تیرہ نومبر کے تاریخی فیصلے کے علاوہ، بلوچ طلباء سیاست کو ہاسٹل سیاست سے نکال باہر کرکے معنی خیزیت بخشنے، عوامی رابطہ بڑھانے، پمفلٹنگ اور لٹریچر پر شبینہ روز محنت کرنے، بلوچ دانشوروں سے ربط قائم کرکے نوجوانوں کی تربیت کیلئے سیمیناروں کے انعقاد، خاص طور پر نوجوانوں کی سیاسی تربیت کیلئے تربیتی سیریز کا آغازجیسے فیصلوں نے بلوچ طلباء سیاست کو نئی جہتیں بخشیں۔
اسکےعلاوہ بی ایس او آزاد کی قیادت سے ایک فیصلہ ایسا بھی ہوا جس کے اثرات تنظیم کی سیاسی ساکھ پر مثبت انداز میں مرتب نہ ہوئے، وہ فیصلہ “سبوتاژ مہم” کا فیصلہ تھا۔
کسی بھی تنظیم، جماعت یا فرد کو جہاں اپنے مثبت فیصلوں کے دفاع کا حق حاصل ہے، وہی یہ اخلاقی جرات بھی ہونا چاہیئے کہ اپنے شعوری فیصلوں جن کے اثرات مثبت انداز میں سامنے نہ آسکے انکی ناکامی کی ذمہ داری بھی لینی چاہیئے۔
شخصیات کی تصاویر کے حوالے سے باقاعدہ اعلان کے بجائے یہ طے ہوا کہ تنظیم کے ویب سائٹ پر جدید بلوچ نیشنلزم کے بانی یوسف عزیز مگسی، اور موجودہ پانچویں بلوچ تحریک آزادی کے بانی نواب خیر بخش مری اور بی ایس او آزادکے بانی ڈاکٹر اللہ نظر کی تصاویر لگائیں جائیں گے۔ اس فیصلے کا بنیاد بلوچ تحریک اور بی ایس او آزاد کے تاریخی پس منظر کو نمایاں کرنا تھا۔
بعد کے حالات نے اس امر کو مزید واضح کردیا کہ بی ایس او آزاد جن امور کا ادراک 2006 میں رکھ رہی تھی اور تیرہ نومبر کی صورت میں 2010 میں ان پر فیصلہ بھی لیتی ہے، ان امور کو باقی جماعتیں بتدریج قبول کرتے ہوئے اسکی اہمیت و ضرورت کو تسلیم کرتی ہے۔
آج کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں اور بلوچ قوم تیرہ نومبر کے دن کو غیر متنازعہ طور پر بلوچ شہداء سے منسوب کرکے شہیدوں کے دن کے طور پر مناتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔