ہوگا طلوع کوہ کے پیچھے سے آفتاب
تحریر۔ جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
غالبا 2006 تھا جب ہم بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم تھے، ھم نے پہلی بار جبراً لاپتہ کیئے افراد سے متعلق بلوچ خواتین پینل کے تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ میں حصہ لیا۔
یہ بی ایس او آذاد کے عروج کا زمانہ تھا۔ طلباء سیاسی تحریک سے جڑت کے باعث کافی متحرک تھے۔ بطور ہمدرد بی ایس او آزاد کی سرگرمیوں میں ایک کردار اپنایا اور یونیورسٹی یونٹ میں کئی پروگرامات و احتجاجات میں دوستوں کے ساتھ مل کر راہ ہموار کی۔
جس وقت چھٹیوں پہ گھرآیا تھا ایک دن شھید محمد خان جسے ہم خانو کہہ کر پکارتے تھے نے کال کی اور خواتین پینل کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں آنے کو کہا تاکہ کام میں اپنے تئیں ہاتھ بٹا کر کچھ آسانیاں لائیں، سو فوراً چلا آیا اور اگلے دن پریس کلب کے سامنے کیمپ جوائن کی۔ یہ مسنگ پرسن پر پہلا منظم احتجاجی کیمپ تھا جسے اب ماما قدیر کے کندھوں نے وسعت دی ہے اور ایک تاریخی مقام دیا ہے۔
بلوچ خواتین پینل کے نام سے بنائی تنظیم کے احتجاجی کیمپ میں مجھ بشمول تین اور متحرک دوست شامل تھے جن میں چیرمین شھید سھراب مری، مھمد خان شھید اور ایک دوسرا دوست تھا۔ بعد میں شھید گلام مھمد کے بھائی واجہ ایسپ بھی آگئے، ہمارا کام کیمپ میں کاغذی کاروائیاں کرنا، رپورٹ بنانا، اخبارات میں نیوز دینا، تمام مسنگ پرسنز کا ڈیٹا اکھٹا کرنا اسی نوعیت کی دیگر کام نمٹانا تھا۔
تادم مرگ پہ بیٹھی خواتین کا یہ کیمپ بلوچ حلقوں کی منت سماجت کے بعد اکیس روز بعد ختم کردیا گیا۔ اس دوران دو منظم تاریخی ریلیوں کے علاوہ اختتامی دن پریس کلب ہال میں سیمینار بھی منعقد کیا گیا جس میں قندیل شھید صباء دشتیاری نے بلوچ مزاحمتی تحرک سے اپنا پہلی عملی جڑت رکھا اور یہاں آکر پہلی مگر تاریخی تقریر کی۔
قندیل شھید کو سیمینار میں شرکت کا دعوت نامہ میں نے دوستوں کو قائل کرکے ایک دوست کے ساتھ ان کے کمرے میں مغرب کے وقت جاکر دی، جب وہ ہندی گیت سن رہے تھے۔ پہلے وہ آمادہ نا ہوئے مگر ہمارے اصرار پر شرکت اور تقریر پہ آمادگی ظاہر کی۔ وہ پروگرام کے بیچ میں آئے اور اپنی نشست پر بیٹھے مرحوم حبیب جالب کی تقریر کے عین دوران ان پر طنز کا وہ نشتر چلایا جس سے حبیب جالب طلملا اٹھے اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
اس بات کو اب کئی سال گذر گئے مسنگ پرسنز کا مسئلہ جہاں تھا، شدت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ ریاست اپنی تمام تر رعونت اور فرعونیت کے ساتھ کھڑی ہے۔ بلوچ بھی خوف و درد کے شکار ان سے نبرد آزما ہے۔ ہمارے ساتھ کیمپ میں اس وقت چند بچے اور بچیاں تھیں، آج بھی بچے اور بچیاں احتجاجی کیمپ میں آنسو بہاتی ہیں۔
گوکہ ریاست نے ظلم و تشدد کا ہر حربہ استعمال کیا، خرید و فروخت کی تمام کوششیں کیں۔ تمام بیکار کوششوں کے ساتھ خوف کا ماحول پیدا کر کے بلوچ مزاحمت کے خلاف سکون لینا چاہا لیکن جس پیمانے کا احتجاج تمام تر اذیتوں کے باوجود اب ہورہا ہے اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ ریاست شکست خوردگی کی جانب جارہی ہے۔ ان کا آخری خوف کا حربہ ناکام ہوا ہے اس لیئے اب ان کے پاس مذید تشدد کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔
12 سال پہلے جن بچوں اور بچیوں نے احتجاجی کیمپ سجائے آنسو بہائے ظلم دیکھے اور ثابت قدم رہے وہ نسل اب جوان ہوگئی ہے آج کی بچیاں پھر کیمپوں میں بیٹھی آنسو بہاتی ظلم آشکار کر کے اپنے حصے کی بچپن کل کی خوبصورتی پر نثار کررہی ہیں۔ اگر بلوچ بچوں کی آنکھوں میں ٹپکتے آنسو دیکھے جائیں تو منزل صاف نظر آتا ہے۔ یہ گرتے آنسو یونہی رائیگاں نہیں جائینگے یہ سراب نہیں خواب بُن رہے ہیں بس ان کو تعبیر بننے کی دیر ہے پھر سب لاپتہ کیئے گئے افراد آئینگے۔ خوش حالی اور آزادی کا نیا صبح طلوع ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔