کوئٹہ :لاپتہ نصیر بلوچ کا خاندان بھی احتجاج میں شامل

281

کسی شخص کو غیر قانونی طور پر حبس بے جا میں رکھنا بذات خود ایک غیر قانونی عمل ہے۔ میرے پاس اپنے بچے کو دینے کیلئے جواب نہیں کہ اس کا والد کہا ہے – زبیدہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے لواحقین کا احتجاج جاری رہا جبکہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے آغا حسن بلوچ، پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء ملا بہرام اور دیگر سیاسی و سماجی کارکنان نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقعے پر پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما ملا بہرام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بچوں، بہنوں اور ماؤں کو لاپتہ افراد کے کیمپ میں دیکھ کر رونے کو دل کرتا ہے، ہمیں ایک ایسے کُرب میں مبتلا کیا گیا ہے کہ 75 سال سے ہمارے بزرگوں، بچوں اور بہنوں کو ذلیل اور خوار کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ منظور پشتین پاکستان کے خفیہ اداروں کو واضح پیغام دے رہا ہے کہ آپ نے جو موت کا کھیل اور تماشا شروع کیا ہے اسے بند کیا جائے۔

ملا بہرام نے کہا ہم سے برداشت نہیں ہورہا ہے کہ ہمارے بچے سردی میں یہاں احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں اور تمہارے بچے بنگلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، ان بچوں اور عورتوں پے رحم کروں۔

انہوں نے اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری تنخواہیں، وردیاں ہماری جیب سے ہیں اور تمہارا سارا نظام ہمارے ٹیکسوں سے چلتا ہے۔

ملا بہرام نے کہا کہ ہم منظور پشتین سے گزارش کرتے ہیں کہ  آپ جلد سے جلد اسلام آباد کے گھیراؤں کا اعلان کرے ہم پشتون اور بلوچ ایک ساتھ ملکر اسلام آباد آئینگے۔

کیمپ میں موجود سماجی کارکن حمیدہ نور نے کہا کہ شبیر بلوچ کے لواحقین کے جدوجہد کو دیکھ کر آج مزید چار خاندانوں کے افراداپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے آئے ہیں جن کا تعلق خاران، پنجگور ڈیرہ بگٹی سے ہیں۔

انہوں نے کہا بعض سیاسی پارٹیوں کے رہنماء احتجاجی کیمپ میں آکر کہتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے تو میرا سوال ہے کہ پھر وہ کرسیوں پر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں جب ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے جبکہ کچھ پارٹیاں یہی ایجنڈا لیکر اقتدار میں آئے تھے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرائینگے لیکن اب لاپتہ افراد کے لواحقین ان سے مطالبہ کرتے ہیں تو وہ کوئی کردار ادا کرتے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے نہ صوبائی اسمبلی میں اور نہ ہی سینٹ میں لاپتہ افراد کیلئے آواز اٹھائی گئی ہے لہٰذا یہ احتجاج اب ایک تحریک کی شکل اختیار کرسکتی ہے اگر بروقت اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

حمیدہ نور نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ شبیر بلوچ سمیت جتنے بھی لاپتہ افراد ہے ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور ان پے مقدمات چلائے جائیں۔

بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں موجود لاپتہ نصیر احمد کے زوجہ زبیدہ بلوچ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میرے شوہر نصیر بلوچ کو کراچی کے علاقے یونیورسٹی روڈ سے 15 نومبر 2017 کو ثناء اللہ بلوچ،حسام بلوچ اور رفیق بلوچ کے ہمراہ رینجرز اور سادہ وردیوں میں ملبوس سیکورٹی اداروں نے اٹھا کر لاپتہ کردیا۔ آج اس واقعے کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن میرے شوہر اور ان کے دوستوں کو منظر عام پر نہ لایا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات دی جارہی ہیں۔ مجھے اپنی شوہر اور ان کے دوستوں کی زندگی حوالے شدید تحفظات لاحق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال کا عرصہ کسی شخص کو غیر قانونی طور پر حبس بے جا میں رکھنا بذات خود ایک غیر قانونی عمل ہے۔ میری شوہر نصیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد ہمارے بچوں کی کیا حالت ہے وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ میری بیٹی جس کی عمر بمشکل 6 سال ہوگی وہ ہر وقت پوچھتی رہتی ہے کہ بابا کب آئیں گے میرے پاس اس کو جواب دینے کے لئے سوائے سسکیوں کے کچھ بھی نہیں۔ میں کس طرح ان معصوم بچوں کومطمین کرو کہ ان کے بابا کب آئیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں اس واقعے کی چشم دید گواہ ہو میرے سامنے رینجرز اور سادہ وردیوں میں ملبوس کئی سیکورٹی اہلکاروں نے میرے شوہر نصیر بلوچ، ثنااللہ بلوچ، حسام بلوچ اور رفیق بلوچ کو غیر قانونی طور پر لاپتہ کردیا جسکی اجازت دنیا کا کوئی بھی قانون نہیں دیتا۔

زبیدہ بلوچ نے کہا کہ آج اس پریس کانفرنس میں یہ اعلان کرتی ہو کہ میرے شوہر کی عدم بازیابی کے خلاف وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے کیمپ میں پانچ روزہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھو گی اور جب تک میرے شوہر اور دیگر لاپتہ بلوچ افراد بازیاب نہیں ہوتے ہمارے احتجاج کا یہ سلسلہ نہیں رکھے گا بلکہ مزید وسعت اختیار کرتا جائے گا۔

پانچ روزہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کے دوران شبیر بلوچ کی فیملی کے ہمراہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا بھی دونگی اور یہ دھرنا نصیر بلوچ، ثناہ اللہ، حسام بلوچ، رفیق بلوچ اور شبیر بلوچ اور دیگر لاپتہ بلوچوں کی عدم بازیابی تک جاری رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں اس پریس کانفرنس کے توسط سے تمام انسانی حقوق کے اداروں، سول سوسائٹی، پروفیسرز،وکلا، ڈاکٹرز، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں اور طالب علموں سے اپیل کرتی ہو کہ وہ بلوچستان میں انسانوں کی جبری گمشدگی کے خلاف جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں کیونکہ اس انسانی مسلئے کے حل کے بغیر بلوچستان میں امن و سلامتی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔