کوئٹہ: لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج، مظاہرین کو وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے سے روک دیا گیا۔

183

لاپتہ افراد کے مسئلے پر وفاقی وصوبائی حکومتیں مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ اگر صوبائی حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی میں اپنا کردار ادا نہیں کرے گی تو سوموار کو بلوچستان یونیورسٹی سے ایک پرامن احتجاجی ریلی نکالی جائیگی۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام آج لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ریلی نکالی گئی، ریلی وزیرعلیٰ بلوچستان ہاؤس جانا تھا لیکن انتظامیہ نے عدالت روڈ کے تینوں اطراف سے گاڑیاں کھڑی کرکے اور فورسز کی بھری نفری تعینات کردی تھی جبکہ ڈی سی نے مظاہرین سے کہا کہ دفعہ 144 نافذ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے لواحقین کو ریلی نکالنے نہیں دی جاسکتی ہے جس کے بعد ریلی کو دھرنے میں تبدیل کیا گیا۔

لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے احتجاجی دھرنا چار گھنٹے تک پریس کلب کے سامنے جار رہا جبکہ دھرنے میں لاپتہ افراد کے لواحقین اور دیگر نے بہت بری تعداد میں شرک کی ، دھرنے میں لو گوں نے اپنے لاپتہ پیاروں کی تصاویر اٹھا رکھی تھی اور حکومت سے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے رہے جبکہ جبری طور پر لاپتہ مہر گل مری کی بہن دھرنے کے دوران بے ہوش ہوگئی۔

دھرنے سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین جن میں لاپتہ شبیر بلوچ، اعجاز بلوچ، عامر بلوچ، میر گل مری، عنایت اللہ، حاجی رحمت اللہ، علی اصغر، صدام بلوچ، دوست محمد بلوچ ودیگر لواحقین کے ساتھ ایم پی اے شکیلہ دہوار بلوچ، آغا دلسوز، سید بایزید شاہ، بی ایس او کے منیر جالب ، جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر افرادنے خطاب کر تے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ۔ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے پرامن طریقے سے کئی سالوں سے احتجاج کر رہے ہیں لیکن انہیں انصاف نہیں مل رہاہے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر وفاقی وصوبائی حکومتیں مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ اور ملکی اور بین الاقوامی ادارے لاپتہ افراد کی بازیابی میں اپنا کردار اداکریں کیونکہ لاپتہ افراد کے لواحقین ذہنی اذیت سمیت بہت سے مشکلات کے شکار ہے جس کا حکومتی اداروں کو احساس ہو نا چا ہیے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اگر کسی پر کوئی الزام ہے انہیں عدالت میں پیش کیا جائے ۔

آخر میں مظاہرین اعلان کیا کہ اگر صوبائی حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی میں اپنا کردار ادا نہیں کرے گی تو تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سوموار کو بلوچستان یونیورسٹی سے ایک پرامن احتجاجی ریلی نکالے گی۔

دریں اثنا عنایت اللہ بنگلزئی کے اہل خانہ نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر عنایت اللہ بنگلزئی کسی بھی جرم میں ملوث ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ عنایت اللہ بنگلزئی 23 مئی 2014 کو اسپلنجی سے کوئٹہ آتے ہوئے مسافر وین فورسز نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا اور اب تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کس حالت میں ہے اگر عنایت اللہ کا کوئی قانونی جرم ہے تو اس کو عدالت میں پیش کیا جائے پچھلے چار سال سے ہم ان کی راہ تھک رہے ہیں۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عنایت اللہ کی بازیابی کے لئے فوری طور پر کردار ادا کیا جائے ورنہ ہم احتجاج کرنے پر مجبور ہونگے۔