اقوام متحدہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ بلوچ انسان نہیں اور انسانی حقوق کی پاسداری کا قانون بلوچوں پر لاگو نہی ہوسکتا – ماما قدیر بلوچ
کوئٹہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3409 دن مکمل ہوگئے۔ سابقہ ایم پی اے صوابی سلیم پشتون ایڈووکیٹ نے اپنے ساتھیوں سمیت لاپتہ افراد کے کیمپ کا دورہ کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ اقوام متحدہ یہ تاثر بھی مضبوط بنا رہی ہے کہ اس کے نظر میں بلوچ انسان نہیں ہیں لہذا اس کے مخصوص فریم کے مطابق انسانی حقوق کی پاسداری کا قانون بلوچ قوم کے لئے لاگو نہیں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اقوام متحدہ اور دنیا کی قسمت کو بنانے اور بگاڑنے والی زمینی عالمی طاقتوں کو ان کے دعوؤں اور ضمیر کی خلش ستاتی تو بلوچوں کی پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی اجتماعی قبروں کی صورت میں برآمدگی جیسے سنگین جنگی جرائم پر خاموش تماشائی کا کردار ادا نہ کررہی ہوتی اور نہ ہی لاپتہ بلوچوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے فریاد اور احتجاج کرنے کے باوجود ملنے والی مایوسی کا شکار نہ ہوتے۔
ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آبادیاتی جبر و استبداد کے خلاف جدوجہد میں آج حق و انصاف کے داعی بلوچ قوم کے شانہ سے شانہ ملانے اور ان کے زخموں پر عملی یکجہتی اور ہمددردی کا مرہم رکھنے والا کوئی نظر نہیں آتا، لاپتہ افراد کے لوا حقین بھوک ہڑتال جیسے اپنی زندگی کو داؤ پر لگانے انتہائی اقدام پر بھی اس لئے مجبور ہوئے کہ شاہد اس سے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دعویداروں کا ضمیر جاگ جائے اور وہ لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے پاکستانی حکمران قوتوں پر دباؤ ڈالے اور انسانی حقوق کی پامالی اور جنگی جرائم کے مرکب ریاستی عناصر کے خلاف بین الاقوامی قوانین اور تسلیم شدہ حصولوں کے تحت کاروائی عمل میں لائیں اور تمام مسائل کی جڑ بلوچ قومی سوال کو اس کی تاریخی بنیادوں اور بلوچ قوم کی امنگوں و خواہشات کے مطابق حل کریں۔
ماما قدیر نے آخر میں کہا کہ بلوچ اب دیکھ رہا ہے کہ لاپتہ بلوچوں کے لواحقین سمیت بلوچ قوم کی ان توقعات پر اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی قوتیں اب بھی خاموش اور بے حس بنی رہی تو پھر بھی بلوچ قوم کسی وقفے کی اپنی جہدو جہد جاری رکھے گی جس کے لئے قربانیوں کی لازوال داستان بھی رقم کرتی رہے گی-