اگر کسی پر الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ لوگوں کو اس طرح غائب کرنا ملکی آئین و قانون کی خلاف ہے – بی این پی رہنما
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3382 دن مکمل ہوگئے، تمپ سے بی این پی کے مرکزی رہنما میر نصیر احمد گچکی نے اپنے ساتھیوں سمیت کیمپ میں لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
میر نصیر احمد نے کہا کہ میں شبیر بلوچ کولاپتہ کرنے کی مذمت کرتا ہوں اور اگر کسی پر الزام ہے تو انہیں گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ لوگوں کو اس طرح غائب کرنا ملکی آئین و قانون کی خلاف ہے اور جو بھی ایسی عمل کا مرتکب ہوتا ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ شبیر بلوچ سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے اور وہ عدالتوں میں پیش کئے جائیں ۔
احتجاجی کیمپ میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے لاپتہ انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ اور اہلیہ زرینہ بلوچ بھی احتجاج میں بیٹھی ہیں۔ شبیر بلوچ کے بازیابی کیلئے ان کے خاندان نے مختلف شہروں اور پریس کلبوں میں احتجاج کئے جبکہ شبیربلوچ کی بہن گذشتہ تین دنوں سے وائس فار مسنگ پرسن کے کیمپ میں موجود احتجاج کررہی ہیں۔
سیما بلوچ کے ہمراہ اس احتجاج میں بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ اور سیاسی کارکن حوران بلوچ بھی شریک ہیں اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ ان سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔
آج سیاسی کارکن حوران بلوچ بھی کیمپ میں موجود تھیں اور انہوں ایک ویڈیو مسیج بھی جاری کیا جس میں وہ شبیر سمیت لاپتہ افراد کے لئے آواز اٹھا رہی ہیں۔
واضح رہے شبیر بلوچ بی ایس او آزاد کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری تھے جب انہیں 4 اکتوبر 2016 کو بلوچستان کے علاقے کیچ سے لاپتہ کردیا گیا تھا۔ بی ایس او آزاد اور ان کے لواحقین کا موقف ہے کہ شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
یاد رہے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق بلوچستان سے اس وقت چالیس ہزار افراد لاپتہ ہے جبکہ ہزاروں لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہے۔ تنظیم کا موقف ہے کہ ان افراد کو لاپتہ کرنے میں پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے ملوث ہیں۔