کرتاپور راہداری سے سکھ قوم مزید پاکستان کے محتاج ہونگے

141

نوجوت سنگھ سدھوکا پاکستان سے قربت صدیوں پرانے سکھوں کے ورثے کو پاکستان کا حصہ تسلیم کرنا سکھوں کے قومی و مذہبی اجتماعی اخوت پر کاری ضرب ہے اور سکھوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ سکھوں کے مذہبی مقامات پاکستان کے خونی پنجوں سے واگزار کرنے کے جدوجہد کا آغاز کرنا چاہئے – چیئرمین خلیل بلوچ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے باباگرونانک کی پانچ سو سالہ تقریبا ت میں پاکستان کی جانب سے کرتارپور راہداری کھولنے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم او رپاکستان کے وجود میں آنے سے جہاں بلوچ قوم نے اپنی آزادی کھوئی وہاں سکھ قوم بھی اپنی سرزمین، مقدس مقامات اور تاریخی ورثے سے ہاتھ دھوبیٹھی۔ آج سکھ قوم کو پاکستان سے اجازت نامے کے لئے بھیک مانگنے کے بجائے تاریخ کا قرض چکا ناچاہئے اور سکھ قوم صرف ایک صورت میں تاریخ کا قرض چکاسکتے ہیں کہ تاریخی وراثت اور سکھ قوم کو یکجاہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ نوجوت سنگھ سدھوکا پاکستان سے قربت صدیوں پرانے سکھوں کے ورثے کو پاکستان کا حصہ تسلیم کرنا سکھوں کے قومی و مذہبی اجتماعی اخوت پر کاری ضرب ہے اور سکھوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اگر سدھو جیسے سکھ سیاستدانوں کے دل میں سکھوں کا حقیقی درد موجود ہے تو انہیں پاکستان سے مذاکرات یا قربت کے بجائے برطانیہ کے ہاتھوں پارٹیشن کے فیصلے پر نظرثانی کامطالبہ کریں اورسکھوں کی تاریخی اور مذہبی ورثے کو پاکستان سے آزاد کرائیں ۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ کرتاپور راہداری پر شادمانی سے سکھوں کے وراثت پر حق ملکیت بحال نہیں ہوگا بلکہ سکھ قوم اپنی تاریخی مقامات کے لئے مزید پاکستان کا محتاج بن جائے گا اورپاکستان کے قبضے کو سند مل جائے گی۔ کرتارپور راہداری کھولنے کا مقصد سکھوں کے لئے ہمدردی نہیں بلکہ پاکستان کی دہشت گردانہ پالیسیوں کی وجہ سے عالمی تنہائی اور دیوالیہ کے قریب پہنچنے والی ریاستی معیشت کو زبوں حالی سے نکالنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ سکھ رہنماؤں کو پاکستان کی ڈوبتی نیا بچا کر تاریخ کا سیاہ دھبہ اپنے سر لینے کے بجائے سچائی کا ساتھ دے کر سکھوں کے مذہبی مقامات پاکستان کے خونی پنجوں سے واگزار کرنے کے جدوجہد کا آغاز کرنا چاہئے ۔ا

نہوں نے کہا کہ ہندوستان کی تقسیم انسانی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اور مغربی طاقتوں کی سازش سے پاکستان کے وجود میں آنے کا خمیازہ بلوچ، سندھی اور پشتون قوموں کو بھگتنا پڑا۔ پاکستان جتنا بلوچ اور دوسرے محکوم قوموں کا دشمن ہے اسی طرح پاکستان سکھوں کابھی دشمن اور ان کے مذہبی اورتاریخی مقامات پر قابض ہے۔ سکھ سترسالوں سے خونخوار دشمن کے پنجوں میں سسکتی اپنی مذہبی اورتاریخی مقامات کے دیدار کے لئے ترس رہے ہیں۔ ان کے مذہبی جذبات کس قدر مجروح ہوئے ہیں اس کا اندازہ نوجوت سنگھ سدھوجیسے لیڈروں کو نہیں ہے۔ سدھو کی طرف سے ہزاروں محکوموں کے قاتل کو گلے لگانا اور راہداری کا بھیک مانگنا ان کے قومی مینڈیٹ کی توہین وتذلیل کے مترادف ہے۔