عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور حکومتِ پاکستان کے مابین ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے کے لیے بیل آؤٹ پیکج پر گفتگو بے نتیجہ رہی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے رات گئے جاری کی گئی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ ’پاکستانی حکام کے ساتھ ہماری بات چیت آئندہ آنے والے ہفتوں میں بھی جاری رہے گی‘۔
واضح رہے کہ پہلے کی طرح اس مرتبہ مذاکرت کے بعد کوئی پریس کانفرنس نہیں کی گئی اور ’ہیرالڈ فنگر‘ کی سربراہی میں وفد مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر واپس لوٹ گیا۔
اس حوالے سے دونوں فریقین نے بیان تو جاری کیے لیکن خاصے محتاط انداز میں اور کم و بیش دونوں جانب سے آنے والے بیان ایک جیسے ہی تھے۔
حالیہ مذاکرات کے بعد اب یہ معاملہ جنوری کے اواخر میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور ان کی جانب سے پروگرام کو حتمی شکل دینے اور منظوری کے بعد ہی فنڈز کا اجرا کیا جائے گا۔
اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وزیر خزانہ اسد عمر کے ملیشئیا اور آئی ایم ایف وفد کے سربراہ ہیرالڈ فنگر کی امریکا روانگی سے قبل دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کا اختتامی دور ہوا۔
سینئر حکام کا اس بارے میں کہنا تھا کہ پس منظر میں ہونے والی مشاورت میں دونوں جانب سے80 فیصد پالیسی اقدامات پر رضامندی کا اظہار کیا گیا جبکہ 5 بڑے نکات پر 20 فیصد خلیج باقی ہے جس میں مالی مطابقت، مانیٹری پالیسی، گیس اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ اور بنیادی اصلاحات شامل ہیں۔
حکام کا کہنا تھا کہ عہدیداروں کی سطح پر ہونے والے سمجھوتے میں بنیادی رکاوٹ مالیاتی ایڈجسٹمنٹ اور اصلاحات کا وقت اور اس کی رفتار تھی تاہم پالیسی اقدمات پر معمولی اختلاف موجود ہیں۔
لیکن پی ٹی آئی حکومت چاہتی ہے کہ ایک باقاعدہ عمل کے ذریعے مالیاتی اور مانیٹری پالیسی کے تکلیف دہ اثرات لوگوں تک منتقل کیے جائیں۔
حکام نے مزید بتایا کہ عالمی فنڈ چاہتا تھا کہ فوری طور پر ٹیکسز میں اضافہ کیا جائے اور توانائی کی قیمتیں بڑھائی جائیں لیکن وزیر خزانہ اسد عمر چاہتے ہیں 3 سال کے عرصے میں یہ مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کی جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فی الحال ہم بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کے لیے سخت ضرورت میں نہیں ہم ابھی دستیاب ذرائع پر اکتفا کرسکتے ہیں وگرنہ ہم اس طرح آئی ایم ایف کے وفد کو جانے نہیں دیتے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی مالی پوزیشن 12 ارب ڈالر کی اشد ضرورت کے مقابلے میں دوست ممالک کی جانب سے 6 ارب ڈالر کی فراہمی کے وعدے کے بعد سے خاصی بہتر ہے اور مزید 3 سے 4 ارب ڈالر کا بھی ’اِ دھر اُدھر‘ سے انتظام کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔