واقعہ کربلا بھی شرمندہ
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
قابض فوجی ریاست پاکستان اس وقت بلوچ، سندھی اور پشتون اقوام کے خلاف مکمل عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے انسانی اور جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے۔
اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلوچ، سندھی اور پشتون بزرگ، نوجوان، خواتین اور معصوم بچے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتار اور لاپتہ ہیں، جن کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے، وہ آج زندہ ہیں یا شہید ہوکر کسی نامعلوم اجتماعی قبر میں دفن ہیں، کسی کو علم نہیں۔
کچھ مدت کے لیئے بلوچ لاپتہ اور مسخ شدہ بلوچوں کیلے اٹھائے جانے والی دھیمی آواز بھی مزید دھیمی ہوکر رہ گئی تھی۔ کئی اور وجوہات کے علاوہ، انسانی حقوق کی صدا بھی روایتی سیاست کے علمبردار اور پیروکار جیب کتروں کے چوری کا شکار ہوگیا تھا۔
کریڈٹ بازی کے شکاری، اپنی ماتحتی، تابعداری، مداخلت بازی اور اپنے اپنے سر پر کریڈٹ کا تاج رکھنے کی تمناء کو لیکر انسانی حققوق کی صدائے احتجاج کو آغوش میں لینے کی گردش میں اسے محدود اور دھیما کرکے رکھے ہوئے تھے۔
مگر آج ایک بار پھر چنگاریوں کی بھڑک اٹھنے کی چمک دمک، یخ بستہ شال کی کوہ چلتن اور کوہ مردار کی اونچائی کو چھورہے ہیں اور ہر بلوچ اور پشتوں کی دل کو چیر کر اسے اپنی طرف متوجہ اور مخاطب کررہے ہیں۔
آج بھی پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں ہزاروں ایسے بلوچ پشتون اور سندھی نوجوان، بزرگ، خواتین اور معصوم بچے کئی سالوں سے لاپتہ ہیں جن کا نام تصویر اور شناخت بھی میڈیا میں لاپتہ اور گمنام ہے۔
ان کے خاندان والے ریاستی دلالوں کی جانب سے بار بار ان کی رہائی اور بازیابی کے آسرے، جھوٹ اور دھوکا دہی کی وجہ سے خاموشی اختیار کرچکے ہیں یا پھر دھونس دھمکیوں کی زد میں آکر خوف کا شکار ہوکر اپنے پیاروں کو بھول چکے ہیں۔ لیکن ان کو ذرا بھی سوچ اور اندازہ نہیں ہے، ان کی اس بے بسی، بے حسی اور خاموشی سے سارا فائدہ قابض ریاست پاکستان اور اس کے خفیہ اداروں کو ہوگا اور نقصان اور خطرہ ان کے پیاروں کے ساتھ ساتھ پورے بلوچ قوم کے قومی مقدمے کا ہوگا۔
کیونکہ اس وقت مہذب دنیا، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور عالمی سیکورٹی کونسل کے ممبر ممالک کے سامنے بلوچ قوم کے قومی مقدمہ کی سب سے مضبوط اور اہم ستون بلوچ لاپتہ اور مسخ شدہ لاشوں کا کیس ہے، جو انسانی حقوق کی تنظیموں اور جموریت پسند اقوام اور ممالک کی آنکھوں اور کانوں کو کھولنے اور ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے اور اگر بلوچوں، پشتونوں اور سندھیوں نے انتہائی منظم موثر اور بہتر طریقہ کار کے ذریعے ثبوت اور صحیح اعداد و شمار کے ذریعے اپنے لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا کیس دنیا کے سامنے پیش کرسکے، تو مستقبل قریب میں پاکستان کے خلاف انسانی اور جنگی جرائم ثابت ہوسکتے ہیں، دنیا برائے راست مداخلت کریگا اور دنیا کے پاس مکمل قانونی طور پر موقع اور جواز ہوگا کہ وہ قابض اور ظالم ریاست پاکستان کے خلاف کاروائی کرے۔
بلوچستان کے علاقے خضدار کے مقام توتک سے برآمد ہونے والی درجنوں تشدد زدہ لاپتہ بلوچوں کی اجتماعی قبریں کوئی معمولی سطح کی واقعہ نہیں ہے۔ جو نظر انداز ہو۔ بلکہ ایک تاریخی دلخراش انسانی المیہ شمار ہوتا ہے۔
اگر کسی باشعور قوم اور خطے میں اس قسم کا واقع پیش آتا تو اس وقت وہ پوری دنیا کو اپنے سر اٹھا لیتے، توتک میں بھیڑبکریوں کا قتل عام اور اجتماعی قبریں نہیں بلکہ انسانیت کا انتہائی بے رحمانہ انداز میں قتل عام ہوا ہے۔
بلوچوں کی 18 سالوں سے پاکستانی فوج اور خفیہ ادروں کے ہاتھوں ہزاروں بلوچوں کی اغواء نما گرفتاری اور انتہائی بے رحمی کے ساتھ ان کی تشدد زدہ اور مسخ شدہ لاشیں خاص کر توتک میں اجتماعی قبروں کی برآمدگی کا واقعے کے سامنے واقعہ کربلا بھی شرمندہ ہے۔
یہ ایک مستند حقیقت ہے کوئی بھی اپنی حقیقت پرمبنی سچائی پر قائم اور برحق ساتھ ساتھ دلیل و منطق اور ثبوت سے چمٹا ہوا مقدمہ اس وقت جیت سکتا ہے، جب اس کے پاس ہنر، حکمت، بہتر طریقہ کار اور علم و شعور ہو بہتر ہنر اور بہتر حکمت عملی کا فقدان خود جیتے ہوئے مقدمے کو شکست میں تبدیل کرسکتا ہے۔
بلوچ، سندھی اور پشتون اقوام ایک ساتھ مشترکہ طور پر اس وقت ہم آواز بن کر انسانی حقوق کے حوالے سے لاپتہ اور مسخ شدہ بلوچوں، سندھیوں اور پشتونوں کے کیس کو بہتر اور موثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرکے پاکستان ریاست کی انسانی اور جنگی جرائم کو طشت ازبام کرسکتے ہیں۔
خاص کر تنطیمی، سیاسی اور نظریاتی تعلقات سے ہٹ کر صرف اور صرف انسانی اور انسانیت کے فلسفے اور نظریئے کو لیکر آگے بڑھتے ہوئے، بلوچ، پشتون اور سندھی سماجوں میں ہرمکتبہ فکر کے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے ان کو ساتھ لیکر اس اہم ایشو اور کیس کے حوالے سے منظم تحریک چلایا جائے۔ اور ان لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لیے بھی باعث حوصلہ اور باعث ہمت بن جائے جو خوف اور بے حسی کا شکار ہوکر اپنے پیاروں کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کرچکے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔