نہیں اٹھوگے، خاک ہوگے – رزم نگاری – برزکوہی

1535

نہیں اٹھوگے، خاک ہوگے

” رزم نگاری”

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

رزمیہ شاعری کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ محض شاعری نہیں بلکہ ایک خاص طرز گائیکی کے ذریعے اظہار حب الوطنی کا بیانیہ ہے، شاعروں نے رزمیہ گیت وجنگی ترانے محاذ جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیئے تخلیق کرنا شروع کیا۔

دنیا میں جنگ و جدل کا اثر براہ راست ادب و شاعری پر ضرور پڑا ہے اور پڑتا رہے گا، خاص کر رزمیہ شاعری کو قومیں اپنے قومی، ثقافتی، تہذیبی، تاریخ پر مشتمل ایک اہم ثبوت شمار کرتی ہیں، رزمیہ شاعری میں اس عہد کی عروج و زوال، ناکامی و کامیابی، ادراک، حقیقتیں، رہن سہن، اطوار، روایات، مزاج و عادات کی روپ نظر آتی ہے۔

بات اگر رزمیہ ادب و شاعری کا ہو آٹھویں قبل مسیح کے شاعر ہومر کو نظرانداز کرنا، اس پر بحث نہ کرنا ادب کی سینے پر خنجر گھوپنے کے مترادف ہوگا۔ جو یونان کے مغربی ساحل (ایشائے کوچک) کے شہر میں پیدا ہوا، تاریخ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہومر نابینا شاعر تھا۔

ہومر کو اپنی دو عظیم اور لافانی طویل نظموں ایلیڈ Iliad اور او ڈی سی odyssey کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل ہے صدیاں گزر چکی ہیں اس کی شہرت میں ذرہ بھر فرق نہیں آیا اور دنیا کے ادب اور شاعری پر ہومر کا اثر آج بھی نظر آتا ہے۔ ہومر یونان ہے یونان ہومر ہے۔۔۔ قدیم اور جدید لکھنے اور پڑھنے والے آج بھی سرجھکا کر نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے اور برملا یہی کہتے ہیں۔

اطالوی زبان کے عظیم شاعر ہوریس نے اپنے دن رات ہومر کی کتابوں کے ساتھ بسر کئے، افلاطون اور سقراط نے بھی اسے ہمیشہ داد دیکر سلام پیش کیا، ارسطو نے بوطیقا کا تانا بانا ہومر کو سامنے رکھ کر بنا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے ارسطو کا شاگرد مشہور و معروف عالمی فاتح اسکندر اعظم ہومر کی نظم ایلیڈ کی کاپی ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا تاکہ میدان جنگ میں اپنی فوجوں کو اس طرح ترتیب وار کھڑا کرسکے جس طرح ہومر نے کتاب میں کھڑا کیا ہے اور ساتھ ساتھ جرنیل اسکندر اعظم اپنی فوج میں جذبہ اور حوصلہ پیدا کرنے کے لیے ہومر کی طویل نظم ایلیڈ کو بطور سبق انھیں ہر وقت پڑھایا کرتا۔

اپنے عہد کے عالمی فاتح نپولین بوناپارٹ نے ایک خط میں جوزیفین کو لکھا کہ میدان جنگ کا جو تجربہ اور مشاہدہ ہومر کی کتابوں میں نظر آتا ہے وہی اصل حقیقت ہے۔

ویسے دنیا میں آج بھی ذہانت، علم و دانش، فلسفہ اور فہم سے شیلے کی مراد وہ نامور شخصتیں ہیں جہنہں زمانہ آج بھی سقراط افلاطون اور ان سب سے پہلے ہومر کے نام سے یاد کرتا ہے یہ عظیم شخصتیں وقت کی فصیل پر چراغ بن کر جل رہے ہیں اور ان کی روشنی میں صدیاں راستہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر چل رہی ہیں۔

ہومر کی طویل نظم ایلیڈ میں یونانیوں کا کلچر، ان کی ثقافت، رہن سہن، پہناوا، عادات و خصائل، ذہنی وسعت، پرانی اقدار، عورتوں و مردوں کے بے مثال کردار، یعنی بہادری عظمت اور خودداری سب کچھ موجود ہے کہنے کو یہ ایک جنگ کی کہانی ہے مگر اس میں یونانی فکر اور یونانی کردار پوری طرح جلوہ گر دکھائی دیتا ہے، یہی نہیں کہ ہومر نے اس میں یونانیوں کی خوبصورت انداز میں پیش کیا اس میں ٹرائے کے لوگوں کی بہادری اور جلال کی بھی عکاسی کی ہے۔

اسی وجہ سے آج بھی عظیم شاعر ہومر کی قبر پر یہ کتبہ لگا ہوا ہے
(اس قبر میں اس مقدس آدمی کا سردفن ہے، جس نے اس دھرتی کے بہادروں کی قدر اور شان بڑھائی اس آدمی کا نام ہومر ہے )

قدیم شاعری و ادب کے مطالعے و غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اثرات نمایاں ہیں، دنیا کی مختلف زبانوں میں رزمیہ شاعری بکھری پڑی ہے۔ ہومر کی ایلیڈ اور اوڈیسی نظم گوئٹے کی فاوسٹ، لاطینی زبان کی بہترین رزمیہ نظم ہیں تو انیڈ (Aeneid) پرتگالی زبان کی بہترین رزم نامہ کہی جا سکتی ہے۔ 1967 میں جان ملٹن نے پیراڈائزلاسٹ جیسی عظیم رزمیہ نظم تخلیق کی۔

اسی طرح ادب کی تاریخ بتاتی ہے کہ 1100 ء قبل مسیح میں آریاؤں کی برصغیر میں آمد ہوئی، آریائی خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر فاتح قوم سمجھتے تھے، وہ اپنی ایک الگ تہذیب و تمدن، کلچر و روایات رکھتے تھے اس لیے جنگی مہمات میں کامیابی حاصل کرتے چلے گئے۔ ہندو مذہبی صحیفہ کہلانے والی مشہور کتابوں میں رزمیہ گیت و نظمیں بھی شامل ہیں۔ رامائن میں اس زمانے کے نامورشاعر رشی والمیک نے اشعار کی شکل میں ایودھیا کے حکمران راجہ دسترتھ اور اس کی تینوں بیوؤں اور چار بیٹوں کے حالات زندگی اور جنگی مہم کا ذکر کیا ہے۔

اس طویل رزمیہ نظم میں آریاؤں کے حملے کی داستان شامل ہے اسی طرح مہا بھارت ایک مذہبی صیحفہ ہی نہیں کورؤں اور پانڈوؤں کے درمیان ہونے والی طویل جنگ کی داستان بھی ہے، اٹھارویں صدی کا سب سے شاندار رزؔم نامہ غضنفر حسین کی طویل مثنوی رزم ’’جنگ نامہ عالم علی خان‘‘ ہے یہ طویل نظم دکنی ادب کی تاریخ، جنگ و جدل، حالات و واقعات میں ایک سند رکھتی ہے۔ دکنی ادب کی طرح یونانی، ایرانی، ترکی ودیگر زبانوں میں بھی رزمیہ گیتوں کی اپنی شاندار روایات موجود ہیں۔

اسی طرح بلوچ قوم کی رزمیہ شاعری، ادب و کلاسیکی گیت بھی تاریخ کے صفحوں میں آج بھی زندہ ہونے کے ساتھ بلوچوں کے ہمسایہ اور ہمدرد اقوام سندھی اور پشتوں قوموں کی تاریخ میں رزمیہ شاعری کی ایک تاریخی باب تاریخ میں درخشاں باب کی طرح موجود ہے۔

سندھ کے بڑے شاعر و صوفی محترم شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں رزمیہ نظمیں سومروں کے دور کے حالات جنگ اور آپسی قتل وغارتگری کی داستان لوک گیتوں کی صورت میں موجود ہیں، تاہم شاہ عبداللطیف کا زیادہ ترکلام اس دورکے اہم واقعات، تہذیب وثقافت اور رسم و رواج کا پتہ دیتا ہے، گویا شاہ سائیں کی پوری شاعری رزمیہ گیت سے زیادہ تاریخی دستاویزکی حیثیت رکھتی ہیں۔

پشتو ادب میں مذہبی اور رزمیہ نظموں کا بڑا اثاثہ موجود ہے، پختون قوم نے اپنی غیرت و حمیت کی حفاظت میں انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی، پشتو شاعری کا بڑا حصہ انگریزوں سے جنگ و جدل کی داستان رزم ہے۔ پشتون ادب کے رزم ناموں میں پشتون کلچر کے خدوخال کو بناء کسی دقت کے پہچانا جا سکتا ہے۔ پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک ہتھیار اور پختون کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں’’جو شخص ہتھیار سے محبت نہ رکھے اپنے آپ کو مردکہلانے کا حقدار نہیں۔‘‘

بلوچ رزمیہ نظموں میں زیادہ شاعری آپسی بلوچوں کی غیراقوام کے خلاف مزاحمت اور جنگ کے ساتھ آپسی قبائلی جنگ وجدل کا نقشہ پیش کرتی ہے، تمام بڑے قبائل آپس میں برسر پیکار رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ رزمیہ نظموں میں قبائلیوں کی آپسی دشمنیاں دیگر زبانوں کی نسبت زیادہ نظر آتی ہے۔ بالاچ گورگیج، ملا فاضل، ملا بوہیر قدیم اور جدید بلوچی شاعری میں گل خان نصیر رزمیہ شاعروں میں ممتاز حیثیت کے مالک ہیں۔

اگر کہا جائے قومی جنگوں میں ادب اور رزمیہ شاعری قوموں میں جذبہ حوصلہ اور ہمت پیدا کرنے کی اہم ستون ہے تو غلط نہیں ہوگا۔اور جنگوں کی داستان اور واقعات صدیوں تک زیادہ تر شاعری کی شکل میں زندہ ہوتے ہیں۔

گوکہ ویسے شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے شاعری انسان کے جمالی احساسات کو پرورش کرنے اور زندہ رکھنے میں ایک موثر ذریعہ ضرور ہے جو اسے فطرت کے قریب پہنچا کر سکون دیتی ہے ۔شاعری کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے، وہ جذبات کو انگیختہ تو کرتی ہے مگر اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے شاعری سیاسی و قومی تحریک کے دوران لوگوں کو جذباتی طور پر ابھار تو سکتی ہے مگر انقلاب کا سبب نہیں بن سکتی ہے۔

انقلاب اور آزادی تو فکری و ذہینی تربیت اور سیاسی شعور میں منحصر ہوتا ہے۔ ضرور شاعری بھی جذبات کو ابھارنے کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور اور علم کا ایک حصہ ہوتا ہے اس وقت جب شاعری خود حقاہق کی بنیاد پر وقت و حالات کے ادراک و پیش بینی پر مشتقل ہو۔

آج بلوچ قوم ایک انتہائی شاطر اور مکار دشمن کے خلاف اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑرہا ہے تو ساتھ ساتھ موجود قومی آزادی کی جنگی محاذ پر بلوچ نوجوانوں اور بہنوں میں حوصلہ اور جرت پیدا کرنے اور موبلائزیشن کرنے میں براہوئی اور بلوچی انقلابی شعراء پروفیسر واجہ منظور بلوچ، پروفیسر لیاقت سنی، غمخوار حیات، عزیز آبادی، واجہ مبارک قاضی، غلام حسین شوہاز، استاد مرید بلوچ، ڈاکٹرباری آجو، نوشین قمبرانی اور دیگر انقلابی شعراء کے ساتھ بلوچ انقلابی گلوکاروں استاد میرآحمد بلوچ، استاد منہاج مختار بلوچ اور استاد عبید اللہ کی تاریخی کردار اس تاریخ ساز دور میں ہمیشہ زندہ و تابندہ ہوگا۔

اپنی بلوچ قومی شہیدوں کی کردار، عظمت، بہادری، خلوص اور ایمانداری اور بلوچ تاریخ، تہذیب، اقدار اور ثقافت کے ساتھ سرزمین بلوچستان کو اپنے فن و ازم اور شاعری سے انتہائی خوبصورت انداز میں اجاگر کرنا بلوچوں میں احساس اور بیداری کی لہر پیدا کرنا قومی جنگ کے حوالے سے یہ نامور کردار اب تاریخ کا حصہ بن رہے ہیں۔

رات دیر کو مجھے استاد مرید بلوچ کی شاعری (بش متورے مش مریرے)استاد میرآحمد بلوچ کی آواز میں سننے کو ملا تو غور سےسننے کے بعد مجھے اس شاعری سے احساس، ادراک اور التجاء کی احساسات اور جذبات ملے

شاعر کہتا ہے ۔بش متورے مش مریرے ترجمہ “نہیں اٹھوگے تو خاک ہوگے” بالکل آج دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال پاکستان سمیت عالمی قوتوں کی بلوچستان پر نظریں اور یلغار اس بات کی دلیل ہے کہ اگر بلوچ قوم اب پورے عوامی و منظم قومی تحریک کی شکل میں اٹھ کر اپنی قومی قوت و طاقت اور قومی جنگ کی شکل میں دنیا کے سامنے نہ آسکا تو وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے خاک ہوجائیگا۔

بلوچ قومی جنگ میں مزید بلوچ شاعر اور ادیب رزمیہ شاعری کے ذریعے بلوچ قوم میں سیاسی شعور اور بیداری میں اہم اور فعال کردار ادا کرے۔

میرے خیال میں مجموعی بلوچ قوم اور بلوچ سماج میں اگر تعلیمی ریشو کم ہونے کی سبب لکھنے اور پڑھنے کی رجحان اور رسائی ممکن نہیں تو شاعری اور گیتوں کے ذریعے بلوچ عوام میں حب الوطنی اور قومی دوستی کی شعور و احساس اجاگر کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ شاعری کی ذریعے اپنی قومی تاریخ شہداء کی قربانیاں اور تاریخی کردار کے ساتھ آنے والے حالات کا ادراک و پیش بینی واضح ہو اور اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑنے والے سورماوں کی صفت خوانی موجود ہو۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔