نومبر تیرہ اور شہدائے بلوچستان
حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
اس موضوع لکھا، پڑھا، کہا اور سنا بہت کچھ جا چکا ہے۔ کسی نے میر مھراب خان اور ساتھیوں کی قربانیوں کا حوالہ دیا ہوگا تو کسی نے آغا عبدالکریم کی بغاوت کا تو کسی قلم نے میر یوسف عزیز مگسی کے خدمات پر بات کی ہوگی تو کسی کا محو گفتگو نواب شہید نوروز خان اور ساتھی رہیں ہونگے، تو کسی نے نورا مینگل کی داستان بیان کی ہوگی، کسی نے شہید نواب اکبر خان شہید میر بالاچ خان اور ان کے ساتھیوں کے بہادری اور دلیری کا حوالہ دیکر اپنی بات کہی ہوگی۔ کسی نے چیئرمین غلام محمد سنگت ثناء کو اپنی قلم سے آپکے دل و دماغ تک پہنچایا ہوگا، تو کسی نے دلجان، بارگ، ریحان اور شئے حق کی دیدہ دلیری اور بہادرانہ صفت کی یاد تازہ کرائی ہوگی اور کرائی بھی کیوں نہ جائے تاریخ میں نام رقم ہی وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے سروں کا سودا کرکے وطن مادر کی دفاع کی جنگ لڑتے ہیں اور قربان ہوجاتے ہیں اور انہی کی خون کے برکتوں سے ہی باقی قوم و نسلیں اپنی بقاہ اور آزادی کی متلاشی ہوتی ہے۔
ان تمام ناموں اور ہستیوں کی قربانیاں بے شک لازوال ہیں اور انکی زندگی کی جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ ہی رہنمائی کرینگے۔ ان ناموں اور ہستیوں کے نقش قدم پر چل کر آج بلوچستان کا ہر ایک بہادر فرزند اپنی سر کی پرواہ کئے بغیر وطن مادر کی حفاظت کی خاطر میدان جنگ میں جوک در جوک حصہ لے رہے ہیں، شہادتوں کا ایک نہ رکنے والا تسلسل جو کہ بلوچستان پر سب سے پہلے قابض پرتگیزیوں کی خلاف میر حمل جئیند جام شہادت نوش کرکے رکھی تھی ہنوز جاری و ساری ہے۔
ان ناموں اور شہداء میں ایک فہرست ان فرزندوں کی بھی ہے جنہیں میں جانتا ہوں، جو میرے ھمگام تھے، میرے دوست اور استاد تھے۔ جن سے سیاسی تربیت حاصل کی جن سے اختلاف رکھا، جن سے دوریاں بھی پیدا ہوئیں، مگر وہ دوست، وہ ھمگام، وہ ہمراہ، وہ استاد وہ اختلاف رکھنے والے تمام نام آج اپنا فرض ادا کرکے ہم سے یہ امید وابستہ کیئے ہوئے ہیں کہ اب ہم کاروان کو مزید دوام بخشیں گے اور وطن کی آزادی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرکے ایک آزاد جمہوری بلوچستان کے قیام کو یقینی بنائینگے۔
یقیناً اس دن کو تمام شہیدوں کا دن مقرر کرکے شہیدوں کے مقصد، ان کی قربانی، انکی بہادری، انکی وطن دوستی کو بہتر انداز میں خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین اور واحد طریقہ ہے۔ مگر اس دن کو سمجھنے اور اس دن کے بعد آگے آنے والے شہدائے بلوچستان دن تک ہماری پالیسیاں اور طریقہ کار کیا ہوگا کچھ سوالات اس بابت ذہن میں ہمشیہ گھومتے رہتے ہیں۔
آج کے دن کو منانے کا حقیقی مقصد کیا ہونا چاہیئے؟
کیا صرف سرخ سلام اور صرف ایک دن شہیدوں کے پروگرام سے شہیدوں کے جہد سے ایمانداری ہوگی؟
کیا ہم ہمیشہ صرف کسی خاص موقع کی سیاست کے انتظار میں رہینگے؟
کیا کل سے شروع ہونے والا دن سے اگلے تیرہ نومبر تک ہم پھر سے اپنی زندگیوں میں مگن ہونگے تو ان شہدائے بلوچستان کو خراج عقیدت ہوگی یا ان کے جدوجہد سے ایمانداری ہوگی؟
کیا ہمیں اگلے سال تک اپنے آپ میں انقلابی و سائنسی تبدیلی (جس کا ہم ہمیشہ راگ الا پتے رہتے ہیں) لانے کی تیاری نہیں کرنی چاہیئے؟
کیا ہم خود کو اس قدر تیار کرسکتے ہیں کہ کل اگر وقت آنے پر تنظیمی حکم نامے پر ہم اپنی آسائشوں کو خیر آباد کہہ کر اپنے حقیقی ہمراہوں کی ہمراہ داری کریں؟
ان تمام سوالوں کے جب ہم جواب ڈھونڈ لیں گے اور حقیقی طور پر جدوجہد کرنے لگینگے تو وہ دن دور نہیں جب ہم شہداء کا دن ایک آزاد وطن میں منائینگے۔ لیکن اگر ہمارے رویے طریقے اور سیاست روایتی، حادثاتی اور مخصوص دنوں تک ہی محدود رہیگی تو ہمیں اور بھی بہت کچھ سہنا پڑےگا۔ اجتماعی حوالے سے کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔