نومبر اجتماعی سوچ کیلئے ایک تنکہ – سمیر جیئند بلوچ

198

نومبر اجتماعی سوچ کیلئے ایک تنکہ

سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم الگ الگ دشمنوں سے اتنی مارکھانے کے باوجود، اجتماعی سوچ رکھنے کے بجائے انفرادیت کی جانب کیوں دن بدن دھنستا جارہاہے؟ کچھ لمحوں کیلئے ہم بلوچ قوم کے ماضی کو کھنگالنے کیلے پیچھے نذر ڈالتے ہیں، تو دوسرے سماجوں کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ نے بھی اپنے اپنے دائرے سے نکل کر کبھی کبھی ظلم کے خلاف سینہ سپرہوکر استحصال کے خلاف مزاحمت کی ہے۔

اس سماج کا چاہے کسی بھی نظریے سے تعلق رہاہو، سیکولر، سوشلسٹ، مذہبی قدامت پسند، جمہوری یا شہنشاہیت، ڈکٹیٹر شپ و فلاحی ریاست یا خانیت غرض ہر وہ طبقہ جس نے بھی سول سوسائٹی کے حقوق ہڑپ کرنے کی کوشش کی ان کے خلاف وہ یک مشت ہونے میں ہی اپنی بھلائی پائی اور محسوس کی۔ نتیجتاً انھوں نے انفرادیت کو چھوڑ کر اجتماعیت کی راہ اپنا کر جدوجہد شروع کی، جس میں کامیابیاں انکی قدم چومنے پر مجبور ہوئیں۔ تاہم کسی نے مینڈک کی طرح انفرادیت کے کنویں ہی کو اپنی دنیا تصور کی تو وہ گھاٹے میں رہے۔ اس گتھی کو سلجھانے کیلئے ہم دور جانے کے بجائے اپنے ہی گریبان میں جھانک کر دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ہمارے آباو اجداد جنھوں نے اجتماعیت کے راہ کو موڑ دیا یا خیرباد کہا تو وہ گھاٹے میں رہے؟ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آج وہ کہاں کھڑے ہیں؟ دنیا انھیں کس نگاہ سے دیکھتی ہے؟ اور دشمن کا رویہ کیسا ہے؟

تمام باتیں چھوڑکر اپنے قومی شہدا کے بارے سوچ بچار کرتے ہیں کہ دشمن ہمارے شہداء کو مار کر انکا کیا حشر کرتا ہے؟ دنیا میں کوڑے کرکٹ کو باعزت طریقے سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے، مگر ہمارے قومی سپوت ویرانوں میں پھینکے جاتے ہیں۔ ہمارے پاس الفاظ نہیں کیا لکھیں کہاں سے ماتم شروع کریں؟ کس کس کے حالت پر اشک بہا ئیں؟ کیا ہمارے خواتین کے ساتھ دشمن کا رویہ وحشیانہ نہیں؟ یا ہمارے بزرگ باعزت طریقے سے کسی شہر اور گاوں میں آزادانہ نقل حمل کرسکتے ہیں؟ اس طرح کے دل دہلانے والے بیسیوں کارنامے ہیں جو دشمن نے ستر سال سے رواں رکھا ہواہے۔ مگر ہم جہاں ہیں، جس حالت میں ہیں، بت بنے بیٹھے ہیں اگر کچھ حرکت غلطی سے بھی سرزد ہوا تو وہ انفرادی ہوگا؟ کیا کسی بلوچ نے یہ سوچ کر شہادت کے جام کو نوش کیا تھا کہ میں سرزمین کے بجائے اپنے خاندان یا تنظیم کیلئے یا فلاں رشتہ دار کے ہیرو بننے کیلئے قربانی دے رہاہوں؟ اسی طرح دشمن کے ہاتھوں زندانوں میں آگ سے گذرنے والے بلوچ فرزندوں نے اپنے غائب ہونے سے پہلے اظہار کیا تھا کہ میں اپنے بہن بھائیوں کا قد بڑھانے، انھیں ذاتی مفاد پہنچانے کیلئے اذیتیں جھیلوں گا؟ اگر نہیں تو کیا ہمیں یہ حق پہنچاتا ہے کہ ہم کسی شہید کے بارے میں شاہ شہیداں، شہید اعظم ، تمغہ جرات بانٹتے پھریں اور دوسرے شہدا کے والدین کے بارے یہ فیصلہ کریں کہ وہ پتھر ہیں اور انھوں نے پتھرہی جنم دیاہے انھیں چھوڑ دیں؟

یہی منافقانہ رویہ دشمن کے ہاتھوں غائب کئے گئے بلوچ فرزندوں کے ساتھ ہمارے اپنے کرداروعمل سے غیر اعلانیہ جاری ہے، خاندان کے افراد ہوں یا ہمارے انقلاب کے ٹھیکدار تنظیمیں ہزاروں شہدا اور بے گواہوں کو چھوڑ کر انفرادی طورپر کسی ایک کو آسمان پر چڑھاتے اور جب جی چاہا اتارتے ہیں، کیا محض ایک شہید یا بے گواہ کے خاندان یا تنظیم کے پاس آنسوں کا ڈیم موجود ہے، جنھیں دیکھ کر ہم سوگوار ہوتے اور ماتم کرتے ہیں جبکہ دوسرے شہداکے خاندان والوں کے آنسو نہیں محض پسینہ ہیں؟ جنھیں دیکھ کر ہماری بے حسی بڑھتی ہے تو دوسری جانب ہماری انسانیت اوربلوچیت کی غیرت بھی سوجاتی ہے؟ جیسے اسے سانپ نے سونگھا ہو۔

آپ بھی جانتے ہیں شہید چاہے دشمن پر خود کش وار کرکے شہید ہو یا مورچہ اور بیگواہی کی صورت میں، قومی شہید ہیں انکا ماتم یا بے گواہوں کی بازیابی کیلئے اجتماعی طور پر قوم کو نومبر کے ماہ کی طرح آواز بلند کرنا چاہئے۔ بغلیں بجانے کایہ رویہ انتہائی مضحقہ خیز ہے کہ کوئی تنظیم کے پلیٹ فارم کو انفرادی کسی ایک شہید یا بے گواہ کیلئے استعمال کرے۔ حالانکہ وہ خاندان داد کے مستحق ہیں کہ وہ جو عمل سرانجام دینے جا رہے ہیں، انتہائی عظیم کارنامہ ہے مگر وہ انفرادی ہے، دوسری جانب وہ احتجاج کو عروج پر پہنچاکر بھی وہ فائدے حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں، جو اس احتجاج سے ممکنہ طورپر کیش ہونے والا ہوتا ہے کوبندی گلی کے نذرکرکے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار دیتے ہیں۔ اگر کسی احتجاج کا ایجنڈا بلوچ بے گواہوہوں کی بازیابی ہو تو یقیناً کوئی نہ کوئی اذیت گاہ سے بازیاب ہوجائے گا، جس کے نام پر احتجاج ہورہا ہے ممکن ہے وہ بھی بازیاب ہو۔ کیا جو ایک بے گواہ کیلئے جہد کر رہا یا رہی ہے وہ خود قوم کا بھائی یا بہن نہیں ؟ یا وہ تنظیم خود قومی جہد کا دعویدار نہیں اگر قومی جہد ہی کا دعویدارہے، جہد کررہاہے تو پھر اپنے آپ کو ایک نقطے پر آکر منجمد کرنا صحیح عمل مانا جائے گا؟ اگر وہ قوم کے بھائی، بہن یا تنظیم ہے تو اسے بلا تفریق خاندان تنظیم کے محدود دائرے سے نکل کر قومی سپوتوں کیلئے آواز بلند کرنا ہوگا تاکہ انفرادیت کو ختم کرکے اجتماعیت کو مضبوط کیا جاسکے۔ کیونکہ بلوچ جہد آزادی کی جنگ بھی وطن کی آزادی کی خاطر لڑی جارہی ہے اور بلوچ قومی سپوت بلارنگ ونسل اور بلاتفریق قربانیاں اپنے ہی ننگ و ناموس کیلئے دے رہے ہیں۔

اس اسٹیج پر آکر ہم اگر ہزاروں شہیدوں کو چھوڑ کر کسی ایک ( اللہ نہ کرے ایسا ہو) کے شہادت پر تقریبات یا دن منائیں تو انکے روحوں کو تڑپانے کے مترادف ہوگا، اسی طرح ہزاروں بے گواہوں کو چھوڑ کر کسی ایک کے بازیابی کیلئے مختلف فورمز پر آواز بلند کریں گے( دوسرے جوکہ اسی آگ میں جھونکے گئے ہیں) انکے ساتھ عنیائے ہوگا۔

ایک منٹ کیلئے فرض کر لیتے ہیں کہ ہم شہدا کے حوالے سے اپنے آپ کو مبرا قرار دیتے ہیں کہ وہ تو شہید ہوا، بے شک شہید ہوا۔ کیا ہمارے ضمیر ہمیں چین کرنے دیں گے یا چھوڑیں گے کہ تو نے شہداء کے ساتھ نا انصافی کرکے ٹھیک ہی کیا؟ یہ مسئلہ اپنی جگہ کیا جو قومی سپوت زندانوں میں ہیں، ان میں سے ہم ایک ہی کیلئے زمین آسمان کو سر پر اٹھاتے ہیں، اگر وہ جو اسکے ساتھ ہی اذیت سہہ رہا یا رہی ہے، سلامت واپس آیا یا آئی تو کیا ہم اس کا سامنا کرنے کی ہمت رکھیں گے؟ یقیناً جواب نفی میں ہوگا۔ مانا کہ فلان بے گواہ کے خاندان کے افراد لکھے پڑھے یا شعور رکھتے ہیں، وہ واویلا کرتے ہیں جب کسی کے پیچھے خاندان کے افراد نہیں( وہ قومی ہی ہے) تو سیاسی تنظیمیں اس کے لیے آواز بلند نہیں کریں گے؟ بس ہر کوئی یہ کہتے ہوئے اپنی راہ لے چلتا بنے، کیا یہ رویہ کسی قومی سپوت بارے قائم کرنا ٹھیک ہے؟ اگر یہ رویہ ٹھیک نہیں تو وہ رویہ بھی ہرگز ٹھیک نہیں کہ میں تنظیم کے ہوتے ہوئے صرف ایک بے گواہ کیلئے آواز بلند کروں۔ جس کے خاندان والوں نے احتجاج نہیں کی تو ہم بھی اپنے گھر بیٹھ کر خاموشی اختیار کریں کہ فلانی کیلئے اس کا خاندان ہی نہیں اٹھتا؟ اگر کوئی بھی تنظیم کسی خاندان کا سہارا لیکر اپنا الو سیدھا کرنے کا سوچے تو بڑی بد قسمتی ہوگی کہ سیاسی تنظیم ایسا رویہ اپنا ئیں۔

ہونا یہ چاہئے کہ دنیا کے دوسرے تنظیموں کی طرح بلوچ تنظیمیں بھی سیاسی ورکروں سے ہٹ کر ان خاندانوں کا بھی مسیحا بنیں جن کا ظاہری طورپر بلوچ جہد میں کوئی رول نہیں ہے، مگر انکے پیارے دشمن فوج بلوچ جہد کے کھاتے میں اٹھاکر شہد یا غائب کردیتے ہیں، ڈھال بن کر انھیں تنظیموں کی طرف کھینچ کر انکا دفاع کرنا چاہیئے کیونکہ وہ بھی قوم کیلئے اذیت سہہ رہے ہیں، انھیں انفرادیت اور گروہیت سے نکال کر تنظیم کے دائرے میں لاکھڑا کرنا چاہیئے۔ مگر گستاخی معاف ہم عام خاندان اپنی جگہ سیاسی ورکروں کے خاندانوں کو بھی کلاسیفائڈ کررکھاہے، سیاست کے وقت وہ سب سے بڑھ کر جیالے ہیں، وہ عام دیوانوں میں اپنے آپ کو انقلابی اسپائڈر مین کہتے نہیں تھکتے، مگر اپنے تنظیمی طاقت کو چھوڑ کر خاندانوں کے پیچھے پڑے ہیں کہ کب کوئی موومنٹ کرتے ہیں کہ میں بھی پریس رلیز اپنے نام سے جاری کرکے میڈیا میں پھرسے زندہ ہوجاوں۔ کیا یہ رویہ کسی تنظیم اور سیاسی ورکر کیلئے نیک شگون اور اچھا ہے؟ اگر نہیں تو ہمیں اس کی حوصلہ شکنی کرکے انھیں اپنے آپ پر بھروسہ دلانا ہوگا کہ کم بخت اصل طاقت کا منبع تم ہی ہو کیونکہ آپ کے پاس سیاسی پلیٹ فارم ہے آپ ہی اصل طاقت کے سر چشمہ ہیں یعنی آپ سایہ دار درخت ہیں آپ سایہ دیں نہ کہ سایہ تلاش کرنے نکلیں۔

افسوس، درد اس وقت سر اٹھاتا ہے اور رونے کو جی چاہتا ہے جب ہم آزادی کے راہ میں شہید ہونے اور زندانوں میں تکالیف، دکھ جھیلنے والے ہزاروں نوجوان، خواتین اور بچوں کا وارث بننے کے بجائے کسی کا باپ، ماں، بہن، بھائی یا تنظیم بن کر شور شروع کردیتے ہیں۔ کیا یہی سوچ بلوچ جہد آزادی کے راہ میں شہیدوں کے روح اور بے گواہ ہونے والے افراد کے قربانیوں پر پانی پھیرنے کے مترادف نہیں؟ یہاں ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایسا انفرادی عمل کرکے ہم دشمن کو نیچا دکھارہے ہوتے ہیں یا اپنے قومی شہیدوں اور بے گواہ ہوں کو؟ جو بھی ہے ایسا عمل انتہائی دردناک اور انقلاب کیلئے زہر قاتل ہے، اسی سوچ کو تبدل کرنا ہوگا اگر یہ سوچ جوکہ گذشتہ پندرہ سال سے تواتر سے جاری ہے نہ روکا گیا تو یاد رکھیں کل ہم بھی بلوچ نہیں ٹک اور زئی کے ناموں سے جانے جائیں گے۔

اس لئے انفرادیت کو لات مار کر اجتماعیت کو اپنانا ہوگا، جس طرح تیرہ نومبر بلوچ شہدا کو یاد کرنے کا قومی دن ٹہراہے، اسی طرح ہمیں اسی تنکے کو سامنے رکھ کر بے گواہ اپنے پیاروں کیلئے، دشمن کے ہاتھوں ریپ ہونے والے خواتین اور بزرگوں کو ہر چوراہے پر بے شرف کرنے پر بھی ایک ایک دن مقر کرنا ہوگا تاکہ ہم انفرادی سوچ کی لانت سے چھٹکارا پاکر اجتماعیت کے خول میں ڈھل جائیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔
>