نوابزادے سے نوابزادے تک
تحریر: ریاض بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ دہرائی گئی اور ٹھیک ایک سال بعد دوسرے بلوچ آزادی پسند تنظیم کا سردار زادہ آمرانہ رویہ اپناتے ہوئے اپنے ذیلی مسلح تنظیم کے ایک ذمہ دار اور قابل اعتماد کمانڈر استاد گلزار امام عرف واجہ شمبے کی انکے ترجمان سرباز بلوچ کے بقول بنیادی رکنیت ختم کردی. نوعیتِ واردات پچھلے سال سے قدرے مختلف ہے، لیکن واردات کے پیچھے محرکات یا مزاج میں کافی مماثلت پایا جاتا ہے۔
“جب تک آپ اسکے مزاج کے کھینچے ہوئے لکیر کے اندر رہیں گے، تو آپ کچھ بھی کریں آپ پر کوئی ڈسپلن لاگو نہیں ہوگا”
یہ الفاظ میں بی ایل اے کے سینئر کمانڈر استاد اسلم بلوچ کے گذشتہ سال چھپے ایک انٹرویو سے کوٹ کر رہا ہوں، یا یوں کہیئے کہ سردار زادوں کی طرف سے آئے روز تنظیمی ذمہ داروں کی معطلی یا رکنیت کے خاتمے والے کہانی کے پیچھے اصل مقصد و مبرائی یہی ہے، وہ کارروائی کرتے وقت الزامات کی لمبی چوڑی فہرست چھپوا دیتے ہیں، لیکن تنظیم سے نکالنے کا اصل مقصد وہی ہے جو میں اوپر دو لائنوں میں کوٹ کرچکا ہوں۔
سنگت گلزار امام نے ہمیشہ بلوچ آزادی پسند تنظیموں اور قیادت کے مابین ایک مفاہمتی کردار ادا کیا ہے، بی ایس او سے فراغت کے بعد بی آر پی اور پھر ریپبلکن آرمی کا کمان سنبھالنا، مختصر سے دورانیے میں بہت سے کٹھن سیاسی اور جنگی حالات کا سامنا کیا، قومی تحریکِ آزادی کو مستحکم کرنے کیلئے بلوچستان اور خاص کر مکران میں ریپبلکن کی تشکیل کنندہ اور فعالیت میں بانی اراکین میں سر فہرست ہیں. شہید سنگت ثناء بلوچ، شہید واجہ شیر محمد بلوچ، شہید سمیر بلوچ سمیت دوسرے زندہ اور شہداء ساتھیوں کے ساتھ ملکر تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔
بی ایس او سے سیاسی وابستگی اور سیاسی و جنگی محاز میں قابل قدر بلوچ سیاسی اکابرین سے قربت کے باعث سنگت گلزار امام میں سیاسی فہم و فراست، پختگی اور صبر و تحمل کافی حد تک پایا جاتا ہے۔
انکی کوشش اور جدوجہد رہی ہے کہ اس رائے کو رد قرار دیا جا سکے کہ “موجودہ بلوچ سردار یا سرداری سوچ، بلوچ جنگ آزادی میں نظریاتی طور پر عملی صورت میں شامل ہو کر دوسرے عام بلوچ طبقے کیساتھ ملکر یا انہیں برابری کے بنیاد پر برداشت کرکے اپنا برابر کا حصہ ڈالیں گے، یا سردار قومی اداروں میں جمہوری بنیادوں پر رائے شماری کا احترام کرکے ایک عام بلوچ کی قیادت پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔
البتہ انکی یہ کوشش ناکام رہی اور وہ یہ ثابت نا کرسکیں، کیونکہ سرداری اور بھوتاری ایک سوچ اور مزاج کا نام ہے جب تک آپ اس مزاج کے تابع رہیں گے آپ لاڈلے اور جب آپ نے اس آمرانہ سوچ کو للکارا تو آپ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
در حقیقت جو لیڈرشپ یا اختیار وراثت یا حادثاتی طور پر مل جائے، تو اسکو مال غنیمت سمجھا جاتا ہے، چاہے کہ آپ کو کسی جمہوری ادارے کی سربراہی کی ذمہ داری سونپ دی جائے لیکن پھر بھی آپ اس ادارے میں جمہوری سوچ کو پنپنے نہیں دیتے۔
ویسے بھی قبائلی یا سرداری سوچ کا جمہوری رائے شماری کا احترام یا انقلابی آدرشوں سے دور کا واسطہ نہیں ہے لیکن یہ شاید استاد اسلم بلوچ، استاد گلزار امام یا حکیم بلوچ اور ہم جیسے چند نادان سیاسی کارکنوں کی بھول تھی کہ ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ہمارے سردار اور بھوتار اب قبائلی سوچ سے نکل چکے ہیں اور قومی جدوجہد میں دوسرے عام بلوچ کی طرح شامل رہیں گے۔
کچھ بلوچ سیاسی مبصرین اور کریٹیکس نے سرباز کے بیان کے بعد ببیگر والے ردِ بیان پر “دیر آید درست آید” کا تبصرہ کیا اور شاید اس لیے اس خبر کو خوش آئند قرار دیا ہے کہ بلوچ مسلح محاذ افراد کی اجارہ داری اور شخصی آمرانہ سوچ سے نکل کر ایک متحد صفحہ پر منجمد اور متحد ہونے جا رہا ہے۔
سرباز بلوچ کیطرف سے گلزار امام کے بنیادی رکنیت کے خاتمے کا بیان، گلزار امام کے جاری کردہ ایک ٹویٹ میں گلزار امام نے بلوچ راجی آجوئی سنگر “براس” کی حمایت کی تھی. اور مختلف مقامات پر دوسرے آزادی پسند تنظیموں کے کارروائیوں کو بھی سراہا اور یوم شہداء پر شہیدوں کو سلام پیش کیا تھا. جو شاید ان پر گراں گزری۔
بہرکیف یہ فیصلہ ایکدم سے تو نہیں لیا گیا ہے، گلزار امام کو بطور کمان یا اختیار دار کمزور کرنے کیلئے سازشیں کافی عرصے سے جاری تھیں، جونیئر ساتھیوں کو ورغلا کر انکے خلاف کھڑا کیا جائے یا کسی نا کسی طرح سے بدظن کیا جائے۔
مکران میں تنظیم کے غلط پالیسیوں یا کارروائیوں پر ہمیشہ عام رائے استاد گلزار امام کے خلاف جاتا تھا، لیکن اندرون خانہ کہانیاں کچھ اور ہوتی تھیں. کچھ ایسے واقعات کا جہاں تک ہمیں علم ہے، متعلقہ کمانڈروں یا سرمچاروں کو گلزار امام نے احتساب کیلئے بلایا، مگر وہ بچنے کیلئے نام نہاد ہائی کمان تک عرضی لیکر پہنچ گئے اور انکو گلزار امام کیخلاف کھڑے ہونیکی شرط پر بری کردیا گیا ہے۔
ایک ذمہ دار کماندار جس نے بلوچستان کے ایک وسیع علاقے میں ساتھیوں کے ساتھ ملکر تنظیم کو منظم کیا، جونیئرز کی سیاسی اور جنگی تربیت کی، بلوچ عوام سے قربت کی انکو یقین دلایا کہ یہ جنگ انکی قومی بقاء کیلئے لڑی جا رہی ہے، دوسری طرف اپنے ساتھیوں کو ایک مہذب قومی جنگ لڑنے کی ترغیب دی. ایک سپاہی بن کر قومی جنگ کا حصہ رہے ہیں۔
تنظیم میں سربراہ ہونے کے ناطے ویسے کوئی قومی لیڈر نہیں بنتا، ایک قومی لیڈر کو اپنے تمام کارکنوں کو مشاورت میں لیکر یا ساتھ لیکر آگے بڑھنا ہوتا ہے. اپنے ذمہ دار ساتھیوں اور کارکنوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیئے، انکی باتوں کو غور و پیار سے سننا اور پرکھنا چاہیئے. یہ ایک انقلابی قومی جدوجہد ہے، کارکن کسی سردار کے رعیت نہیں ہوتے کہ جب چاہے ٹوک لیا جب چاہے روک لیا۔
اگر تنظیم کے سربراہ یا لیڈر ہر معاملے میں قنوطیت یا منفی سوچ کا مظاہرہ کریں گے، تو اسکے ماتحت اور بالادست دونوں کا اس پر اعتماد ختم ہو جائے گا. ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ صورت حال کو بہتر انداز میں تبدیل کر سکیں. ایک بہترین لیڈر سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایسے اہداف مقرر کرے جن کو حاصل کرتے ہوئے ٹیم ایک خاص سمت میں پیش قدمی کر سکے، ایک قومی لیڈر کا سوچ وسیع ہونا چاہیئے۔
اپنے منفی جذبات، ذاتی پسند نا پسند کو ایک طرف رکھ لیجئے، اپنے کارکن یا رفقاء کی ذات پر حملے کرنے سے گریز کرنا چاہیئے. یاد رکھیں کہ کوئی لیڈر مافوق البشر شے نہیں ہے. اگر کارکن نہیں رہے تو آپ بھی لیڈر نہیں رہیں گے. آمرانہ رویوں سے گریز کریں۔
ایک لیڈر بحث مباحثے اور مسابقت کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور تنظیم کیلئے نئی راہیں متعین کرنے کے حوالے سے آراء پیش کرنے میں کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔