امریکی نائب صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ میانمار کی حکومت اور فوج کے پاس روہنگیا مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کے حق میں پیش کرنے کے لیے کوئی جواز نہیں ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کے مطابق سنگا پور میں ریجنل سمٹ کے سائیڈ لائن اجلاس میں نائب امریکی صدر نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی سے ملاقات کے دوران کہا کہ انہیں روہنگیا مسلمانوں کے مسائل سے متعلق امور پر تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘میانمار فوج کی جانب سے تشدد اور قتل و غارت کے نتیجے میں 7 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو مجبوراً بنگلہ دیش ہجرت کرنا پڑی جس پر کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا‘۔
مائیک پینس اور آنگ سان سوچی کے درمیان ملاقات ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہوئی۔
واضح رہے کہ دو روز قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آنگ سان سوچی سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوج کی جانب سے نسل کشی کی کارروائی پر ‘خاموش’ رہنے پر ‘ایمبیسڈر آف کونسائنس ایوارڈ’ واپس لے لیا تھا۔
گزشتہ روز ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتر محمد نے آنگ سان سوچی پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ میانمار کی رہنما کو مسلمانوں کی تکالیف کا احساس کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ رویہ ’ناقابل دفاع‘ ہے۔
دوسری جانب آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں سے متعلق امریکی نائب صدر اور دیگر ممالک کے رہنماؤں کے بیان کو مسترد کردیا۔
مائیک پینس کے بیان کے جواب میں آنگ سان سوچی نے کہا کہ ’کسی دوسرے کے مقابلے میں ہم اپنے ملک کو بہتر سمجھتے ہیں اور یقیناً آپ بھی ایسے ہی سوچتے ہوں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ حالات کس طرح بہتر ہوں گے۔’
دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے دوران امریکی نائب صدر نے زور دیا کہ میانمار حکومت روہنگیا مسلمانوں پر رپورٹنگ کرنے والے دو زیر حراست رپورٹرز کو بھی بری کرے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں واپسی کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اس کے ساتھ ہی وہاں ان کی شہریت کی ضمانت اور سیکیورٹی کے خدشات تاحال قائم ہیں۔
تاہم دونوں حکومتوں نے تصدیق کی تھی کہ وہ نومبر کے وسط سے بڑے پیمانے پر روہنگیا کی واپسی کا عمل شروع کریں گے جبکہ سماجی کارکنان کا کہنا تھا کہ درحقیقت رخائن پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
جس کے بعد 42 امدادی ایجنسیوں اور سول سوسائٹی گروہوں نے ایک بیان میں اس اقدام کو ’خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ (روہنگیا) خوفزدہ ہیں کہ اب وہ میانمار واپس جائیں گے تو ان کے ساتھ کیا ہوگا اور موصول ہونے والی اطلاعات کی کمی کی وجہ سے پریشان ہیں‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’انہوں نے محفوظ مقام کی تلاش میں بنگلہ دیش کا رخ کیا تھا اور پناہ دینے پر بنگلہ دیشی حکومت کے شکر گزار ہیں‘۔
بنگہ دیش کے سرحدی علاقے میں متحرک امدادی تنظیموں کا کہنا تھا کہ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے بعد میانمار واپس جانے سے خوفزدہ ہیں۔
بعد ازاں اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کی جانب سے پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کی جبراً بے دخلی کا عمل انسانی حقوق کے خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے میانمار واپسی کا عمل روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔