مہلب سے ماہ رنگ بلوچ تک
ہونک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستا ن میں جبری گمشدگی کاقصہ نئی بات نہیں، جب اس مو ضوع پر بات کی جائے، تو اس کی تاریخ بہت لمبی ہے، جب بھی جبری گمشدگی کا قصہ سامنے آجاتا ہے، تویقین کریں ذہن دنگ رہ جاتا ہے۔ اب یہ قصے روز کا معمول بن چکے ہیں، یقین جانیں جو درد کے قصے جبری گمشدہ لوگوں کے اہلخانہ بیان کرتے ہیں تو درد سے بھری ان آوازوں کو کوئی انسان اور انسانیت سے پیار کرنے والا شخص نہیں سن سکتا، کیو نکہ درد کو سننا بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے، وہ لوگ یہ سب درد اور اذیتیں برداشت کررہے ہیں، انکی جرات کو سلام پیش کرتاہوں، جو روز اسی امید کے ساتھ جیتے ہیں کہ شاید ان کے پیارے اسی انتظار میں ان اذیت گاہوں سے چھوڑ دی جائے۔ میں کہتا ہوں وہ خوش قسمت ہیں، جن کے پیارے کسی نا کسی صور ت انکو ملے ہیں، چاہے وہ لاشوں کی صورت میں ہوں، وہ بھی اپنی درد کو تسکین دینے انکے آخری آرام گاہ جایا کرتے ہیں لیکن وہ درد چیخ اٹھتی ہے، جب لب پر یہ آتی ہے کہ میرے والد کو دس سال ہو چکا ہے وہ ریاستی عقوبت خانوں میں بند ہیں، کہیں یہ قصے بھی موجود ہیں جن کے پیارے دو دھائی سے زیادہ عرصے سے ٹارچرسیلوں میں بند ہیں، جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں، مگر وہ داد کے مسحتق ہیں وہ بہادری کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اس سفر میں لوگوں کی تعداد میں کمی نہیں آتی، روز اس میں شدت آتی رہی ہے، سب سے پہلی آواز مشکے سے خو اتین نے اٹھایا، جب بی ایس او کے سابق چیئرمین ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کو ساتھوں سمیت ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے جبری طور پر کراچی سے اٹھا کر غائب کیا گیاتھا، جو مشکے سے ہوتے ہوئے آج دنیا کے ہر کونے میں بلوچ خو اتین اپنے رشتہ دارو ں کی بازیابی کیلئے ایک سیاسی طاقت بن چکی ہے، جو آج آواز بلند کر رہی ہے۔
اس طرح کے آوازوں سے ریاست خو فزدہ ہوکر ہر طرح کے ہتکھنڈے استعمال کرتا ہے اور کر رہی ہے، جس طرح تمپ سے بی بی شاہناز کو بھرے جلسے میں گولی ماری گئی، قاسم جلے کی بہن، خاران سے ظفر بلوچ کی بیوی، شہید حلیمہ، بی بی یا تو، نیو کاہان میں رمضان کے مہینے میں گلناز مری کی قتل سے ظاہر ہو جاتا ہے یہ اُن کی ذہنی شکست تھی، حال ہی میں یعنی گذشتہ سال سینکڑوں بلوچ خواتین کو مشکے، جھاؤ ،سبی ،کوہلو ،سندھ سے بلوچ خو اتین کو جبری طور اغو اکیا گیا، جن میں اکثریت اب تک لاپتہ ہیں، کہنے کا مقصد یہ ہے، بہادر بیٹیوں اور ماؤں کی قربانی کسی سے کم نہیں، انکا ہمت اور حوصلہ اونچا مقام رکھتا ہے۔
سنیں ایک چھوٹے سے قصے کو، جو مشکے سے شروع ہو تا ہے۔ آج سے قریباً دس سال پہلے کی بات ہے، سات سال کی ننھی مہلب دین جو اپنا اسکول چھوڑ کر مشکے سے اسلام آباد، کراچی، کو ئٹہ تک اپنے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کیلئے در در کی ٹھو کریں کھاتی رہی۔ مگر آج بھی اُمید کے سفر کی جانب گامزن ہے۔ آج بھی اسکولوں اور کالجو ں کے بدلے پریس کلبوں کے سامنے دن گذار رہی ہے، بالکل اسی طرح ایک اورننھی سی پری کی ذکر کرتا ہوں، جسے ماہ رنگ کہتے ہیں جسکے والد نصیر احمد کو 15نومبر 2017کو کراچی یونیورسٹی روڑ پر واقع گھر سے ساتھیوں سمیت سندھ رینجرزا ور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے کراچی سے جبری طور پر گھر سے گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے، آج پورا ایک سال بیت چکا ہے یعنی 360دن8640 گھنٹے تک ہر سیکنڈ اسی انتظار میں گذری ہے کہ کب نصیر احمد بازیاب ہو کر واپس آئینگے، وہ راتوں کو اپنے والد کے گود میں بیٹھ کر قصے سنے گی، اسی امید کے ساتھ یہ دن بیت رہے ہیں۔
بلوچستان میں ایسے گھر کم ہی ہیں جہاں سے کسی کا کوئی چشم وچراغ پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوکرغائب نہیں ہوا ہے، ،کیا بلوچ کو اس دنیا میں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، یہاں کسی کی آئین اور قانون نہیں چلتی ہے، یہ اپنے آئین کی پامالی کررہے ہیں۔ اُس کا اپنا قانون ہے کہ کسی کو گرفتاری کے بعد 24گھنٹے کے اندر اندر عدالت میں پیش کی جاتی ہے لیکن اس کی فوج کو اپنے آئین پر بھروسہ نہیں یا تو وہ اپنے آئین سے بڑی ہے لیکن جس طرح اس کے فوج کے حرکات کو دیکھ کر بہت سے سوالات سامنے آجاتے ہیں، لیکن ایک حیر انگی کی بات یہ ہے کہ کیوں یہ معاشرے اس طرح دبی ہوئی ہے، بے حس ہو چکی ہے، کچھ نہیں کہتی ہے، کیا ہم روز اس فوج کا خوراک بن کر ختم ہو جائیں یا ایک مضبو ط آواز بن کر ہر جبر کا مقابلہ کریں؟ تاکہ ظلم وجبر سے نجات پا سکیں۔
بلوچستان میں بسنے والے بلوچ اور پشتوں پارٹیو ں کو چاہیئے کہ وہ ایک رول ادا کریں کیونکہ وہ اسی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں، جہاں یہ روز یہ تقریر کر رہے ہیں کہ ہم اپنے حقوق کی حصول کے لئے جو باتیں کر تے ہیں، مگر عملاً کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ انہیں چاہیئے جس آئین کے وہ بات کرتے ہیں، اُس کے رو سے نہتے بچوں کی آواز میں آواز ملائیں تاکہ ماہ رنگ، مہلب، سیما، فرزانہ جیسی ہزاروں بہنوں کی مستقبل بچایا جاسکے۔ انکے پیاروں کی باحفاظت بازیابی میں بہتر کردار ادا کریں، انکے مستقبل کو تحفظ دیں، انسانی حقوق کے اداروں کا انسانی فرض بنتا ہے، وہ مثبت کردار بلوچستان میں ادا کریں۔ اسی طر ح مہلب اور ماہ رنگ کی طرح ایسی ننھی پریاں بہت ہیں، جو راتوں میں اٹھ کر اپنے ماؤں سے کہتی ہیں “بابا نہیں آیا” جن کو ماں پھر یہ تسلی دے کر سونے کو کہتی ہے، سوجاؤ، بابا کل لازم آئیگا، مگریہ کل کب آئے گا۔ آج بھی ماہ رنگ اسی انتظار میں جھاؤ سے کراچی اور اب کو ئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی سنجر جان کے ساتھ پہنچ چکی ہے۔ آیئے ان معصوموں کو انصاف دینے اور پیاروں سے ملانے کیلئے ان کا ساتھ دیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔