مٹّی کی بیٹی
جابر آسکانی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ سرزمین، جس کو قلم کی نوک پر رکھ دیں تو عنوان کے باب کھلتے چلے جاتے ہیں۔ مٹّی، ہوا، دھوپ، چھاوں حتیٰ کے گّلشن کے پھولوں، پرندوں کے پروں، بکری اور دنبوں کی پشت پر ہاتھ رکھ دیں تو آگ کی تپش راکھ کی سیاہی نظر آتی ھے۔۔۔۔۔
بلوچ سرزمین، جہاں پر مائیں بچُوں کو مادرِوطن کا پرچم اوڑھ کر اپنے خاک اور ننگ و ناموس کی حفاظت کے خاطر شہید ھونے بھیج دیتی ہیں ۔۔۔۔۔
بلوچ سرزمین، جسکی بیٹیاں شاہ سوار بانڑی، محبت اور قربانی کی مثال حانی، غیرت کی پہاڑ مہناز اور کئی ایسے نام اور القاب جنکی داستانیں بلوچی ادب اور تاریخ کی شان سمجھے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔
وہ سرزمین، جہاں عورتیں اپنے بچوں کی پیاس بجھانے کیلیے 50 کلو کے مشکیزے کندھوں پر لاد کر پہاڑی چوٹیاں سَر کرتی ہیں۔ اور جنگ کے وقت اپنے مردوں کو پانی پلاتی ہیں، میگزینوں میں گولیاں بھرتی ہیں اور انکا حوصلہ بڑھاتی ہیں۔۔۔
کوئ بھی تحریرہو، اثر عنوان سے نہیں بلکہ سچّائی سے پیدا ھوتی ھے اور سچّائی آج دُنیا کے سامنے عیاں ھے، اس بات سے کوئ انکاری نہیں کہ آج بلوچ سرزمین کی بیٹیاں ظالم اور زورآور ریاست کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہیں۔۔۔۔
ایک غیر فطری ریاست جسکا نا کوئی زبان ہے، نا ثقافت، نا تاریخ نا روایات ناکہ تہذیب۔۔ آج سرزمین کی بیٹی ایک ایسی دشمن سے لڑ رہی ہے، جسکے پاس نا غیرت ھے نا کوئی جنگی تہذیب۔ وہ انسانی اخلاقی روایات سے قطعاً نا آشنا ھے، مگر سرزمین کی بیٹی نے آج اس دشمن کو اتنا شرمندہ کیا ھے کہ اب وہ لاچار ہوگیا ہے اور اندھیرے میں ہاتھ پاوں مار رہا ھے۔۔۔۔۔۔ سرزمین کی بیٹی یہ جنگ کسی مہلک ہتھیار سے نہیں لڑ رہی، وہ بالکل خالی ہاتھ ہے اور ایک دودھ پیتا طفل بغل میں لیئے، یہ جنگ لڑرہی ھے ۔۔۔۔۔۔
اگر دیکھا جائے، بلوچ سرزمین کی بیٹی یہ جنگ جیت چکی ھے کیونکہ وہ میدان میں ہے اور دشمن چھپ گیا ہے، سامنے نہیں آرہا، وہ اسے بُلارہا ہے، للکار رہا ہے، مگر دشمن اپنے جنگی بزدل چیلوں اور ناکام ہلہ گروں اور گری ہوئی ہتھکنڈوں کو آزما رہا ھے، مگر خود سامنے آنے کی جراّت نہیں کر رہا۔۔۔۔۔۔
آج بلوچ سرزمین کی بیٹی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنے دامن، جسکی خوشبو مادر وطن کی مٹّی جیسی ھے، جسکی روشنی سورج کے تیز کرنوں جیسی ہے، جسکی تاریکی ھیبت سال کی سب سے سیاہ رات شبِ دیجور جیسی ھے، وہ اُس دامن پر کسی ناپاک قدم کو نہیں پڑنے دیگی۔