مسرتوں کا سندیسہ – زبیر بلوچ

252

مسرتوں کا سندیسہ

زبیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

ہمارے جیسے پسماندہ معاشروں میں شعور کی رفتار غیر معمولی حد تک سست ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مسلسل سیاسی عمل ،مادی اور غیر مادی ترقی کا وجود نہ رکھنا ہے۔

سماج کے اندر بہت بڑے پیمانے پر تغیر اور تبدیلی لانے میں مختلف عناصر اور عوامل کارفرما ہوتے ہیں، اس میں داخلی ,خارجی حالات اور سماجی ماحول قابل ذکر ہیں. داخلی, خارجی حالات تبدیلی کے مسلسل عمل کے محرکات ہوتے ہیں لیکن ہر معاشرے کے اپنے زمینی حقائق ہوتے ہیں. انہی زمینی حقائق کی روشنی میں تغیر اور تبدیلی آتی ہے, اس بات سے انکار ممکن نہیں۔

یہ عمل اتار چڑھاو، تندی و تیزی کے پرپیچ مرحلے اور قانون فطرت سے گزر کر کندن بن جاتا ہے۔ بلوچ وطن کی نازک کیفیت بھی تندئ تیزی کے نقطہ عروج و زوال ، ذلت و رسوائی، روز کی تذلیل ، بے بسی کی پگڈنڈیوں سے بے سروسامانی میں ٹھوکریں کھانے کے بعد ایک مرتبہ پھر ایک جگہ پر منتج ہورہی ہے۔ اس مرتبہ اس میں شعور بیداری اور حرکت ماضی کی نسبت زیادہ پختگی اور وسیع النظری کے ساتھ دیکھائی دے رہی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھراو اور جمود کی کیفیت کو توڑ کر اس نئی صف بندی اور ابھار میں کس طرح ڈھالا جائے گا اور جدوجہد کے پیرامیٹر کیا ہوں گے؟ قیادت اور جڑت کس طرح پیدا کیا جائے گا؟ ماضی کے غلطیوں کا تعین کس طرح کیا جائے گا؟

ماما قدیر جس کی مسنگ پرسنز تحریک کے اندر بہت شاندار رول ہے اور گراں قدر قربانیاں ہیں. ہزاروں دن کیمپ میں بیٹھ کر گزارے، جینوا، واشنگٹن اور نیویارک کے یاترے اور چکر کاٹےلیکن حاصلات کیا ہیں؟ بلکہ حاصلات کو مسخ اور دھندلا کرکے رومانیت کے دھند میں لپیٹ کر, سرابوں میں سرگرداں رہا۔

لاپتہ افراد کے اس نئے ابھار کو کچھ جمہوری مروجہ اصولوں اور اقدار کی پابندی کرتے ہوئے جذباتیت ،سطیحت اور محدودیت کے دائرے اور سیاسی وابستگیوں اور قربت کے خول سے نکل کر تحریک کو ایک حقیقی سمت دینے کی ضرورت ہے۔

لاپتہ افراد کا پچھلے ٹریک ریکارڈ, سیاسی کریڈٹ گری، پوائنٹ اسکورنگ ،خود نمائی اور نرگسیت کا ریکارڈ ہے. یہ ایسی بیماریاں ہیں جو اندر رہائش پزیر ہوتی ہیں اور چاٹ چاٹ کر انسانی تشخص کو کھوکھلا کر دیتی ہیں جو بالاخر بکھرنے کے سبب بنتا ہے۔

معروضی حالات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتاہے، معروض کو مد نظر رکھ کے انسان حقوق کی پائمالی اور ان کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ماضی کی سنگین غلطیوں کو درست کر کے کچھ نئے ردوبدل کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں پھیلے جموری و ترقی پسند قوتیں ،لبرل اور انسان دوست لکھاریوں ، دانشوروں اور محنت کش عوام کے ساتھ ایک جڑت بنا کر تحریک کو ایک طبقاتی بنیاد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ طبقاتی جڑاو اور سمبندھ لاپتہ افراد کی تحریک کو شکتی دیتی ہے جس سے دیگر مظلوم قوموں کے اندر ایک قوت اور تحریک پنپتی ہے مظلوم اور استحصال زدہ اقوام کی یہ تحریک پچھلے تجربات سے کئی گنا توانا ، طاقتور اور منطقی ہو گی جو شعوری فعالیت اور تجربات سے گزر کر ایک منظم ،فعال اور نہ تھمنے والی انقلابی تحریک کا رنگ دھار لے گی. جب استحصال زدہ ان مظلوموں کا جم غفیر اپنے غیر متزلزل ارادوں کے ساتھ گھروں سے نکلے گا تو اس کو روکنے کے لیے حکمرانوں ،ظالموں اور جابروں کی طاقت،قوت،وحشت،جبر, جو وہ روز اول سے قومی استحصال اور سماجی جبر کا شکار قوموں کے گلا گھوٹنے کے لیے استعمال کر رہی ہے, عدل ،انصاف،مساوات،برابری،اور انسانی بنیادی حقوق کی جدوجہد کے سامنے بکھر کر پارہ پارہ ہو جائے گا۔

مظلوموں کی اس تحریک کو مرد آہن کی ضرورت ہے، جس کا ہاتھ معروض کے نبض پر ہو درست اور بروقت فیصلہ کرنے میں جس کے پیر نہ ڈگمگائیں۔ درست قیادت کی عدم موجودگی سے یہ ابھار ادھر ادھر بھٹک کر دم توڑ دیتا ہے۔ دم توڑتا اور سسکتا یہ سیاسی بھونچال جب بکھر جائے اور بھٹک جائے تو ایک بہت بڑی پسپائی اور مایوسی کو جنم دیتا ہے۔

مظلوموں کے اس ابھار کو قومی استحصال، جبری گمشدگی، بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل، اظہار رائے کا استعمال اور جمہوری انسانی حقوق کے بنیادی سوال کے طور پر جدید خطوط سے آراستہ پیرامیٹر کی بنیاد پر پیش کرنے کی ضرورت ہے. یہی مدعا جدوجہد اور مسرتوں کا سندیسہ ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔