لندن: بی این ایم کا تیرہ نومبر یوم شہداء کی مناسبت سے یادگاری ریفرنس کا انعقاد

286

بلوچ نیشنل موومنٹ یوکے زون کے زیراہتمام لندن کے مقامی ہوٹل ریڈسن بلو پورٹمین میں 13نومبر یوم شہداء کی مناسبت سے ایک یادگاری ریفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں شرکاء کی کثیر تعداد میں شرکت اور شہداء کو خراجِ عقیدت۔

‎تیرہ نومبر یوم شہداء بلوچ کے مناسبت سے برطانیہ کے دارلحکومت لندن میں بلوچ نیشنل مومونٹ یوکے زون کے زیر اہتمام ایک مقامی ہوٹل میں یادگاری ریفرینس کا انعقاد کیا گیا، جس میں بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنوں سمیت ورلڈ سندھی آرگنائزیشن، بلوچ کمیونٹی و دیگر سیاسی پارٹیوں کے کارکنان نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

‎ریفرنس کا آغاز شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوا۔ جس کے بعد شرکاء کو بلوچستان کی جدوجہد کے حوالے سے ایک مختصر لیکن جامع ڈاکومنٹری فلم دکھائی گئی۔ جس میں شہداء کے اہلخانہ کا 13نومبر کے حوالے سے پیغامات دِکھائے گے۔

‎ریفرنس سے لوکل کونسلر اینڈ چیئرمین نیشنز ودآوٹ اسٹیٹس گراہم ویلیمسن، صبا سراواک یونین کے رہنما ڈورس جونز، بلوچ نیشنل موومنٹ کے انٹرنیشنل اسپوکس پرسن حمل حیدر، ورلڈ سندھی کانگریس کے رہنما ڈاکٹر لکھو لوہانا، بی ایس وائی اے کے سابقہ چئیرپرسن و رائٹر قمبر بلوچ، ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ نور مریم، بی ایس او آزاد کے سینئر رہنما عزیز مینگل، ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ مہناز بلوچ، بلوچ پولیٹیکل و ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ رحیم بندوہی، بلوچ راجی زرمبش کے رہنما اسماعیل امیری اور بی این ایم لندن زون کے آرگنائزر حکیم بلوچ نے خطاب کیا۔ جبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض بی این ایم لندن زون کے ممبر سکندر بلوچ نے انجام دیئے۔

‎مقررین نے اپنے خطاب میں بلوچستان کے شہداء کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ شہداء ہماری یاداشتوں میں امر رہ جانے کے قابل ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو اپنے قوم کے روشن مستقبل اور غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے قربان کردیا۔

‎انہوں نے نے13 نومبر کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہید میر مہراب خان نے جس طرح جوان مردی کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کے سامنے ڈٹ کر بلوچ وطن کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کی اسی طرح آج بھی مادر وطن کے فرزند ہر میدان میں دشمن سے نبرد آزما ہیں۔ آج بھی بلوچ نوجوان اپنی مادر وطن کی دفاع میں اپنی جانوں کی نذرانے دے کر رہتی دنیا تک سرخرو ہورہے ہیں۔ آج فرزندان بلوچ جس بہادری سے دشمن کے سامنے ڈٹ کر بلوچ وطن کی دفاع کر رہے ہیں، وہ صرف بلوچ تاریخ نہیں بلکہ مظلوم اقوام اور غلامی کے خلاف لڑنے والے اقوام کی تاریخوں میں ایک سنہرے باب میں رقم ہونگے۔ اور اس دن کو یوم شہداء بلوچ کے طور پر منانے کا مقصد تمام شہداء کی یکسانیت کو قائم رکھ کر ان کی عظیم قربانیوں کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا ہے۔

‎مقررین نے کہا کہ دنیا میں حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اور بلوچستان اپنی جغرافیائی لحاظ سے ان تبدیلیوں سے ضرور متاثر ہوگا۔ اس لئے آج کی حالات ہم سے تقاضہ کررہے ہیں کہ ہم بھی بحیثیت قوم آنے والے حالات سے مقابلہ کرنے کے لئے ذہنی اور سیاسی حوالے سے تیاری کریں۔ جس کے لئے ایمانداری کے ساتھ سب کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔

‎مقررین نے کہا کہ اس جدوجہد کے دوران ہم سب سے بہت سی غلطیاں اور کمزوریاں سرزد ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے ہماری جدوجہد اپنی اصل ہدف سے دور ہوکر کسی اورسمت رواں دواں ہوئی۔ جس سے ہمیں سیاسی میدان میں بہت مشکلات پیش آئی۔ آج ہم اس دن کی مناسبت سے سوچیں کہ ہم سے کونسی غلطیاں سرزد ہوئی۔ انہی غلطیوں پر سر جوڑ کر بیھٹنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی بدلتی ہوئی حالت اور تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر اپنے قوم کی مستقبل کے لئے پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے۔

‎مقررین نے اتحاد و اتفاق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ہم سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ مل بیٹھ کر اپنے تمام اندرونی سیاسی مسائل و اختلافات کو حل کرکے یک آواز اور یک مشت ہوکر منزل کی طرف گامزن ہوں۔ آج سب سے زیادہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے۔ وہ یقیناً اتحاد و اتفاق ہے۔ آج کے دن ہم اپنے شہداء کے روحوں سے یہ عہد و پیماں کریں کہ ان شہداء کی منزل کو پانے کیلئے ہم ایک پلیٹ فارم تشکیل دینے میں مددگار رہیں گے۔

مقررین نے مزید کہا کہ اس کثیر تعداد میں دیارِ غیر میں لوگوں کا مجتمع ہوکر بلوچ شہداء کو یاد کرنا اور خراج تحسین پیش کرنا اس بات کا غماز ہے کہ شہیدوں کی خون کی روشنی، ظلمتوں کو چیرتے ہوئے زندہ ہے اور تاابد زندہ رہی گی۔