لاپتہ عزت جان اور ساتھیوں کو ایک سال مکمل – سنگت مرید بلوچ

500

لاپتہ عزت جان اور ساتھیوں کو ایک سال مکمل

تحریر۔ سنگت مرید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید امداد بجیر بلوچ کہتا ہے: “تہنا زندگ بووگ زندگی نہ انت بلکہ زندءِ مقصد سرپد بووگ و آئی واستہ جہد کنگ زندگی انت۔” اس کا مطلب ہے کہ اکیلا زندہ رہنا زندگی نہیں ہے۔ بلکہ زندگی کا مقصد سمجھنا اور جدوجہد کرنا ہے۔

اس دنیا میں ہزاروں لاکھوں کروڑوں انسان زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہر کسی کی مختلف سوچ ہے۔ اگر کوئی انسان کہتا ہے مجھے ہزار سال تک زندہ رہنا ہے۔ آیا ہزار سال تک زندہ رہنے کےلیے کیا کِیا جائے؟ آیا ہزار سال زندہ رہنے کےلیے عیش و عشرت کی زندگی گذاری جائے، تب انسان ہزار سال تک زندہ رہ سکتا ہے؟ یا پھر دوسروں کے لیے زندہ رہ کر؟ مطلب قوم و وطن کےلیے، کیا پھر انسان ہزار سال زندہ و جاوید رہ سکتا ہے؟ بالکل انسان ہزار سال زندہ رہ سکتا ہے۔

انسان عمر کے لحاظ سے ہزار سال تو کیا آج کی دنیا میں سو سال بھی زندہ نہیں رہ سکتا لیکن سوچ و نظریے کے لحاظ سے ہزار سال زندہ و جاوید رہ سکتا ہے۔

آج ہمارا موضوعِ گفتگو لاپتہ سنگت عزت جان، لاپتہ سنگت حسام جان، لاپتہ سنگت نصیر جان،لاپتہ سنگت قمبر بلوچ ہے۔ آج سنگت عزت جان و دیگر دوست ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ سنگت عزت ہو یا حسام، نصیر،قمبر ہو عمر کے لحاظ سے 25سال سے لیکر 32 سال کے درمیانی عمر کے ہونگے۔ لیکن کارنامے، سوچ، نظریہ، ایمانداری، مخلصی، قوم و وطن سے بے انتہا محبت نے آج دوستوں کو ہمارے درمیان موجود ہونے نہیں دیا۔

آج لاپتہ دوستوں کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے لیکن تاحال کچھ بھی معلوم نہیں وطن کے جاں نثار دوست کہاں ہیں، کِس حال میں ہیں۔ دشمن ریاست کے پاس زندہ ہیں یا شہید کیے جا چکے ہیں۔ کیونکہ ریاستِ پاکستان جس درندگی وحشیانہ ظلم و جبر کا مظاہرہ آئے دن کررہا ہے۔ بلوچ آزادی پسند سیاسی طلباء تنظیم و پارٹی کے کارکنوں و لیڈروں کو لاپتہ کرکے اٌن کی مسخ شدہ لاشیں جنگلوں، ویرانوں میں پھینک رہا ہے۔ یہ بات کسی ذی شعور انسان سے ڈھکی چٌھپی نہیں ہے۔ ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ ریاستِ پاکستان ایک ظالم، جابر وحشی ملک ہے۔ جو اخوت المسلمین کا دعویٰ کرتا ہے لیکن بےگناہ سیاسی کارکنوں کو زندان میں قید کرکے زہنی و جسمانی ٹارچر کرتا ہے، اگر کسی سیاسی کارکن کو رہا بھی کیا جائے تو سیاسی کارکن وہ حالت میں نہیں رہتا جو عام انسانوں سی زندگی گزارے۔

اگر آج دشمنِ پاکستان اخوت المسلمین کا دعویدار ہے، کیا اسلام میں بے گناہ انسانوں پر تشدد کرنا جائز ہے؟ کیا اسلام اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کسی کا حق چھین کر اٌس پر ظلم و جبر کیا جائے؟ اگر اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا تو بلوچ، دشمن پاکستان کیوں اخوت المسلمین کا دعویٰ کرتا ہے؟ تو پھر کیوں اسلام کا دعویدار ہے۔

اسلام میں تو انسانیت کی فلاح و بہبود کا درس دیا گیا ہے۔ اسلام کھبی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بے گناہ سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کو زندان میں قید کیا جائے۔

آج ہم کس دوست کی مہر و محبت کی بات کریں۔ اگر عزت جان کے بارے میں گفت و شنید کیا جائے، تو آنکھیں آنسوؤں سے نم ہوجاتی ہیں۔ اگر نصیر، حسام، قمبر کے بارے میں بات کیا جائے، تو دل میں آگ بھڑک اٌٹھے گی۔

کیا آج ریاستِ پاکستان بی ایس او آزاد کے سابقہ سیکریٹری جنرل عزت بلوچ سی سی ممبرحسام بلوچ، نصیر بلوچ اور بی این ایم ممبر قمبر بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کریگی؟ ریاستِ پاکستان نہیں چاہتی کہ عزت بلوچ سمیت تمام لاپتہ آزادی پسند لیڈروں کو بازیاب کیا جائے؟

اگر باریک بینی سے غور کیا جائے تو لاپتہ سنگت عزت بلوچ سمیت دیگر دوستوں سے پہلے دادجان سمیت دوسرے دوست بھی لاپتہ کیے گئے ہیں کراچی شہر سے۔ لاپتہ دادجان سمیت دوسرے دوستوں کو بھی کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے لاپتہ کیا جاتا ہے۔

پھر کچھ عرصے کے بعد ہی سنگت عزت بلوچ اور دوسرے دوستوں کو بھی کراچی کے علاقے صفورہ گوٹھ سے رینجرز اور انٹیلیجنس کے اہلکار لاپتہ کرتے ہیں۔ سنگت نصیر بلوچ کی wife بانک زبیدہ بلوچ کا کہنا تھا کہ جب عزت اور دوسرے دوستوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے، تو اس وقت رینجرز اور انٹیلیجنس کے گاڑیوں کی تعداد 35 یا 40 کے قریب تھی۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاستِ پاکستان عزت اور دوسرے دوستوں سے کتنا خوفزدہ تھا۔

اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے دادجان اور دوسرے دوستوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد عزت جان، نصیرجان، حسام جان، قمبر بلوچ کو بھی کراچی شہر سے لاپتہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی سنگت صدام بلوچ کو کراچی یونیورسٹی سے تمام دوستوں کے سامنے سے لاپتہ کیا جاتا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے آئی ایس آئی سمیت دیگر اداروں کی نظریں بی ایس او آزاد کی مرکزی کابینہ پر تھیں تاکہ مرکزی کابینہ کے تمام لیڈروں کو لاپتہ کیا جائے اور اس کارواں کا خاتمہ کیا جائے۔ آئی ایس آئی اور دوسرے اداروں کی یہ پالیسیاں کچھ حد تک کامیاب ہوئے۔

اگر باریک بینی سے سوچا جائے تو اس سے قبل دادجان کولاپتہ کیا جاتا ہے، تمام دوستوں کو معلوم تھا کہ حالات اجازت نہیں دیتے کہ تمام دوست ایک ساتھ اور ایک ہی شہر میں موجود ہوں۔ اس کے باوجود بھی بی ایس او آزاد کی اکثریت مرکزی کابینہ کراچی شہر میں موجود تھی۔ کچھ مہینے کے بعد عزت اور دوسروں کو اسی شہر سے لاپتہ کیا جاتا ہے۔

میرے خیال سے عزت اور دوسروں کو چاہیئے تھا کہ وہ یہاں موجود نہ ہوتے۔ وہ اپنے آپ کو save کرتے۔ بقول لینن ایک قدم آگے دو قدم پیچے جیسی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے۔

آج عزت جان اور دوسرے دوستوں کو اتنی جلدی جانا نہیں چاہیئے تھا۔ بہت سارے کام، بہت ساری ذمہ داریاں عزت جیسے باصلاحیت، باشعور، باعلم، لیڈر صحیح معنوں میں نبھا سکتے۔ ہزاروں سوالات انسانی ذہن میں آتے ہیں۔ کیا عزت اور دوسرے دوستوں کو پتہ نہیں تھا۔ کہ ہم اپنے آپ کو save کر سکتے ہیں؟ سب کو پتہ تھا۔ تمام دوست تنظیم کی فلاح و بہبود کےلیے جدوجہد کررہے تھے۔ تمام دوست تنظیم کو ایک اچھے سرے سے فعال کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

بلوچ قوم کی بقا کی جنگ ایک ایسے ظالم، جابر، وحشی ریاست کے ساتھ ہے جو دنیا کے لیے ایک بہت بڑا سر درد ہے۔ آج عزت اور دوسرے دوست ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں اور ریاستِ پاکستان نہیں چاہتا عزت اور دوسرے کو بازیاب کیا جائے۔ آج بس ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالی عزت اور دوسرے تمام آزادی پسند دوستوں کو بازیاب کرے۔

آج بی ایس او آزاد جیسے طلباء تنظیم عزت، چیئرمین زاھد، چیئرمین ذاکر جان، نودان، نصیر، لکی جان جیسے باصلاحیت، باشعور،باعلم لیڈر بنارہا ہے۔ اگر شاہد میں غلط نہ ہوں، بی ایس او آزاد ایک کمپنی ہے۔ جو اپنے پروڈکٹ بنارہا ہے اور مارکیٹ میں سپلائی کررہا ہے۔ بی ایس او آزاد ایک نہ رٌکنے والی، نہ بکنے والی کمپنی ہے، جو آج تک تمام مشکلات، مصائب اور رکاٹوں کا مقابلہ کررہا ہے اور قومی آزادی کی جدوجہد میں پیش پیش ہے۔

آیا آج ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ آج ہم صرف عزت جان اور دوسرے دوستوں کےلیے ایک ایک آرٹیکل لکھ کر اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم بھی عزت اور دوسرے دوستوں کو جانتے تھے۔ جو آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ یا کل ہم تمام ایماندار مخلص دوستوں کو بھول جائیں یا قومی تحریک سے کنارہ کش ہوجائیں یا قومی تحریک کے مخالف بن جائیں کہ آج سیاسی تنظیم و مسلح تنظیموں کی پالیساں غلط ہیں یا قومی تحریک غلط سمت پر رواں دواں ہے۔

آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عزت جان، نصیرجان، حسام جان، قمبر بلوچ اور تمام دوستوں کی قول وفعل کو پورا کریں اٌن کی تمام ذمہ داریوں کو سرانجام دینے کی کوشش کریں اور مستقل مزاج رہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔