لاپتہ عزت بلوچ
تحریر۔ عابد جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کا ایسا کوئی کونا نہیں جہاں بزدل ریاست کے فوجی بی ایس او آزاد کے سیاسی کارکنوں کا کتوں کے طرح کھوج نہیں لگا رہے ہوں گے۔ آج تک کئی کارکناں کو لاپتہ کرچکے ہیں حتیٰ کہ کئی کے مسخ شدہ لاشیں بھی ملے ہیں۔ چونکہ ہم تو سیاسی ممبر ہیں، ہمارے ہاتھوں میں قلم کے سوا کچھ نہیں۔ پتہ نہیں یہ ریاستی دہشت گرد کیوں ہمارا مقابلہ گولی سے کررہے ہیں۔ ویسے تو دنیا میں بہادری کا یہی فلسفہ رہا ہے کہ بات کا جواب بات میں، الفاظ کا جواب الفاظ میں اور گولی کا جواب گولی میں لیکن یہاں تو نہ بات کا جواب بات میں ہے، نہ کہ الفاظ کا جواب الفاظ میں دیئے جاتے ہیں۔ اپنے شکست کو قبول کرتے ہوئے طلباء تنظیم کے سیاسی کارکنوں کی بات اور الفاظ کا جواب انہیں گولی سے دیا جاتا ہے۔ یاپھر انہیں بدنام زمانہ ٹارچرسیلوں میں پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ پھر ان ہی ٹارچر سیلوں میں ان الفاظ اور سوچ سے لیس طلباء کو انسانیت سوز اذیت دیکر شہید کیا جاتا ہے۔
خیر شہادت جیسے رتبے سے شاید کوئی اور رتبہ دنیا میں نہیں جو انسان کو بلندی کے اعلٰیٰ درجے پر فائز کرتا ہے۔ ہاں آج ہمارا سر ان شہادتوں کی وجہ سے فخر سے بلند ہے اور ہم بڑی فخر محسوس کرتے ہیں، اپنے آپ کو اس شہداء کے کاروان کا مسافر۔ ان کا بیش بہا سوچ اور فکر ہم جیسے خوش نصیبوں کو عطا ہوئی جس پر جتنا فکر کرے کم ہے۔ ان شہداء نے تو ایک تاریخ رقم کی جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔
آج میں اپنے ان تنظیمی اسیران کے بارے میں کچھ الفاظ رقم کررہا ہوں جنہیں ایک سال پہلے یعنی 15نومبر 2017ء کو پاکستان کے فوجی اہلکاروں نے کراچی سے اغواہ کیا گیا۔ نا جانے یہ کونسی ریاستی بہادری ہے کہ کسی سیاسی ورکر کو اس طرح غائب کرو کہ جس کا کچھ حال احوال تک نہیں ملے۔ ہاں یہ تو درست ہے کہ ان کے ذہن میں اجالا ہے۔ جب بھی انسانی ذہن میں روشنی وجود میں آتی ہے پھر وہاں تاریکی کیلئے کوئی جگہ نہیں بچتا۔ اسی اجالے ذہن اور مضبوط موقف کی وجہ سے بغیر کسی عدالت، کورٹ کچھری میں پیش کرنے کے بس سال ہا سال انہیں دنیا کی عارضی تاریکی میں بند کیا جاتا ہے۔ ریاست بھی تو اتنا ذہین ہے کہ انہیں بی ایس او کا ماضی اچھی طرح یاد ہے۔ آج اگر وہ ہمارے لیڈران کو اپنی تنگ تاریک کال کوٹھڑیوں میں قید کرتا ہے تو اس کی وجہ بھی ماضی ہے۔ آخر ریاست یہ کیسے بھول سکتا ہے کہ اس طلباء گروہ کے لیڈر شہید حمید بلوچ پھانسی کے پھندے کو مسکراتے چوم کر اپنے موقف کی دفاع میں گلے لگایا تھا۔
شہید مجید اور اسلم جیسے نڈر طلباء کی بہادری کے داستان کو کیسا بھول سکتا ہے۔ اس کی تو بنیاد سے خوف اور لالچ کے وجود کو مٹایا گیا ہے۔ دنیا اس کا چشم دید گواہ ہے کہ ریاست اس تنظیم کے ممبران میں خوف پھیلانے کیلئے ورکروں اور دوستوں کو ٹارگٹ کرکے شہید کرنا یا ان کو اغواء کرکے ان کے لاشوں کو مسخ کرکے ویرانوں میں پھیکنے کا ناکام منصوبہ بنایا۔ ان تمام تکالیف، مشکلات اور مصائب کے باوجود بی ایس او آزاد اسی طرٖح طلباء اور طالبات کی بنیادی حقوق کی جدوجہد کررہی ہے۔ یقیناً بنیادی حقوق کا اصل مقصد طلباء اور طالبات کی ذہنی پروش کرنا ہے، جہاں ایک طالب علم کے شعور میں یہ آجائے کہ زندگی کا اصل مقصد قوم سے جوڑی ہے۔ یعنی اگر قوم باقی تو میں باقی اگر قوم کا وجود ختم تو میں کچھ بھی نہیں۔ میری زبان، ثقافت، تاریخ اور زمین ہی میرا اصل میراث ہے۔ ان کی رکھوالی کیلئے تعلیم حاصل کررہا ہوں۔
ان ہی جدوجہدوں کے پاداش میں پاکستان کے سیکورٹی اہلکار کراچی سے بی ایس او آزاد کی جنرل سیکریٹری عزت بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبر حسام بلوچ اور نصیر بلوچ اور بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ کو 15نومبر 2017ء کو لاپتہ کردیا گیا۔
ایک سال گذر گیا ان طلباء کی خیر خیریت کا کچھ حال احوال ہے نہ ہی انسانی حقوق کیلئے بنے گئے ادارے کوئی ایکشن لے رہے ہیں۔
لیکن یہ ایک کائناتی سچائی ہے کہ نظریے اور سوچ و فکر کو ظلم و جبر سے نہ ختم کی جاسکتی ہے اور نہ ہی روک سکتے ہیں۔ عزت بلوچ، حسام بلوچ اور نصیر بلوچ کے دیئے گئے تربیت آج بھی بی ایس او کے ممبران کو کتاب اور قلم سے جڑے رکھے ہیں۔ آج بھی بی ایس او ایک فکری جدوجہد کررہی ہے۔ عزت بلوچ نے ہمارے ہاتھوں میں قلم دی تھی اور ہمیں کتابوں سے قریب کردیا۔ عزت بلوچ آج بھی دنیا کے سامنے سرخ رو ہوکر کامیاب ہے کیونکہ بی ایس او کے ممبران آج بھی مختلف مضوعات کے کتابوں کے مطالعے میں مگن ہیں۔ ہاں ہمارے ہمیں مطالعے کا تربیت کرنے والے ہمارے حسام اور نصیر جان کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ ہمیں عزت کا حوٖصلہ افزا گفتگو سے محروم رکھا گیا ہے۔
عزت جان کاش مجھے آپ کے عقوبت خانوں کا پتہ معلوم ہوتا میں ضرور آپ کی دکھ، درد اور تکلیف دور کرنے کیلئے کچھ کتابیں بھیجتا۔ مجھے پتہ ہے آپ کتابوں اور اپنے نظریاتی کارکناں کے غیر موجودگی میں جس بے چینی کی کیفیت سے گذر رہے ہو، اس کو الفاظ میں بیان کرنا صرف مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ مجھے اتنا اندازہ ہے کہ ان بزدل سپاہیوں نے آپ کی ملاقات کماش زاہدجان، زاکر جان اور شبیر جان سے نہیں کروائے ہوں گے۔ حسام جان اور نصیر جان کو بھی الگ الگ کرکے یار کی جدائی کا درد دے رہے ہوں گے۔ اب پتہ نہیں بلوچستان اور باہر دنیا کی انسانی حقوق کے دعویدار کتنے عرصے آنکھ چراتے رہیں گے۔ آپ کے نظریاتی دوستوں نے تو سوشل میڈیا پر پوری دنیا کو جگائی ہے۔ عزت جان ہمارے تو بے ترتیب الفاظ کو آپ ترتیب دیتے تھے لیکن آپ کو دشمن ہم سے اتنے دور کرگئے کہ ہم اپنے مضمون کے الفاظ کو ترتیب دینے کیلئے بھی نہیں بھیج سکتے۔ بس انہیں بے ترتیب الفاظ کے ساتھ ایک خوشخبری آپ کو دوں شاید مجھ سے پہلے دشمن نے اپنے ظلم اور اذیت میں اضافے کے ساتھ یہ خوشخبری دی ہوگی کہ آپ اور دیگر شہداء اور اسیران کے قربانی اور موجودہ لیڈران کے جدوجہد کے بدولت بی ایس او آزاد کا اکیسواں قومی کونسل سیشن آپ کے اور دیگر اسیران کے یاد میں کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔