لاپتہ افراد کے مسئلے پر پاکستان کی سپریم کورٹ نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہے – ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن

164

ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کے جاری بیان میں لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے جاری احتجاجی تحریک کا حمایت کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک اہم انسانی مسئلہ ہے اس وقت بلوچستان کی طول و عرض سے ہزاروں نوجوان اور بزرگ لاپتہ ہیں جن میں سیاسی کارکن، انسانی حقوق کی کارکن، سماجی کارکن، طالب علم، وکلاء، ڈاکٹر، قبائلی عمائدین شامل ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ بلوچستان میں گذشتہ دو دہائیوں سے جاری فوجی آپریشن اور گمشدگیوں کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، سماجی ترقی کا پہیہ مکمل طور پر رُک چکا ہے، سیاسی بے چینی، عدم استحکام، خوف اور آئے روز ریاستی جبر کی وجہ سے سینکڑوں خاندان اپنے آبائی علاقوں سے نقلی مکانی کرکے سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مہاجرت کی زندگی گزارنے مجبور ہیں لیکن وہ وہاں بھی محفوظ نہیں ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین جن میں خواتین اور کمسن بچے بچیاں شامل ہیں گذشتہ کئی دنوں نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے کیمپ میں احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں، سرد موسم کی وجہ سے اُنھیں شدید مشکلات درپیش ہے لیکن پاکستان کے اندھے، بہرے اور گھونگھے اختیار داروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور اُنہوں نے اس اہم انسانی مسلے سے چشم پوشی اختیار کی ہے، پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا بھی بلوچستان کے مظلوم لوگوں کو مکمل نظر انداز کرچکے ہے، عدلیہ انصاف فراہمی کے بجائے ڈیم بنانے، اسپتالوں اور اسکولوں پر چھاپے اور سیاسی مداخلت میں مصروف عمل ہے چیف جسٹس پاکستان چھوٹے سے چھوٹی مسئلے پر سوموٹو نوٹس لیتا ہے لیکن بلوچستان میں خواتین اور معصوم بچے، بچیاں اس شدید سردی میں سڑکوں پر انصاف کی متلاشی ہے لیکن پاکستان کے تمام ادارے بشمول سپریم کورٹ مجرمانہ خاموشی اختیار کرچکے ہیں، میڈیا، عدلیہ اور پارلیمنٹ خفیہ اداروں اور فوج کی ڈر سے زبان پر تالہ لگا کر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہے، مظلوموں کی آہوں، سسکیوں اور آنسووں سے لطف اندوز ہورہے ہے۔

بیان میں ایک خبر رساں ادارے کے جانب سے کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ آوروں کو لاپتہ افراد سے جوڑنے کی عمل کو مضحکہ خیز اور شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو متنازعہ بنانے کے لئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بغیر کسی تحقیق کے یہ ڈرامہ رچایا گیا تاکہ لاپتہ افراد کے تحریک کے حالیہ منظم اُبھار کو کاؤنٹر کیا جاسکے اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کو خوفزدہ کرکے اُن کے پرامن تحریک کو ختم کیا جاسکے، ریاستی ادارے اس سے قبل بھی اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے ہے لیکن لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک حقیقی انسانی مسئلہ ہے اس مسئلے کو غلط بیانی، جھوٹ اور فریب سے نہیں دبایا جاسکتا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بلوچستان کے لوگوں کا اعتماد پاکستان کی تمام اداروں سے اُٹھ چکا ہے اس لئے بلوچ قوم اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور علمبرداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی خاموشی توڑ کر بلوچستان میں جاری ریاستی جبر، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور انسانوں کی جبری گمشدگیوں کا نوٹس لے کر بلوچ قوم سمیت دیگر مظلوم اقوام کو انصاف دلانے کے لئے اپنا انسانی اور اخلاقی کردار ادا کریں۔