لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے – اختر مینگل

280

لاپتہ افراد کی عدم بازیابی اور ان کے لواحقین کا احتجاج حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے ۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم احتجاجی کیمپ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

سردار اختر مینگل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس الفاظ نہیں کہ بات کا آغاز کہاں سے کروں، سرد موسم میں لاپتہ افراد کے ورثاء جس کوفت، درد اور اذیت سے گزررہے ہیں۔

انہوں نے کہا صوبائی یا مرکزی حکومت اگر محسوس کرسکتے ہیں تو یہ احتجاج ان کے منہ پر طمانچہ ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ احساس نام کی چیز اس ملک اور بالخصوص اس صوبے سے کوچ کرچکی ہے۔ کئی دنوں سے خواتین و بچے سراپا احتجاج ہیں جو کسی خزانے کی تلاش یا کسی حکومت کو گرانے یا حکومت بنانے اور مراعات کیلئے نہیں بیٹھے ہیں بلکہ بحیثیت ایک انسان اپنے والد، بھائی اور بیٹے کیلئے یہاں سراپا احتجاج ہیں۔

اگر حکومت ان کے مطالبات کو پورا نہیں کرسکتی ہے تو حکومت میں رہنے کا جواز کیا ہے۔

اختر مینگل کا مزید کہنا تھا کہ دس سالوں سے لوگ لاپتہ ہے اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ہم کیمپ میں آئے ہیں اور احتجاج میں شامل ہوئیں ہے۔ 2012 میں خود سپریم کورٹ میں جاکر پیش ہوا اور ہم نے کئی پیشیاں بھگتی ہے جبکہ لاپتہ افراد کے ورثاء نے اپنے گھر کا سامان بیچ کر ان پیشیوں میں شرکت کرکے اپنی فریادے، دکھ بھری داستانیں سنائی لیکن اس کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔

انہوں نے ماما قدیر بلوچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضعیف شخص کوئٹہ سے لیکر کراچی اور اسلام آباد تک لانگ مارچ کرتا ہوا لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ پہنچا لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی، کسی نے ان کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے نکات میں سرفہرست لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے تاہم ابھی تک ہمیں کوئی مثبت جواب نہیں ملا ہے اور زبانی جمع خرچی کو میں جواب نہیں مانتا بلکہ مثبت جواب وہ ہے کہ جب یہاں پر بیٹھے افراد مطمئن ہوکر اپنے گھر واپس جائینگے۔

انہوں نے حکومت اداروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو تو بلوچستان کا مسئلہ صرف ڈیموں، سی پیک یا حکومتیں بنانے اور گرانے سے حل نہیں ہوگا بلکہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اس مسئلے کا واحد حل تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا تعلق کسی بھی علاقے، قبیلے، پارٹی یا تنظیم سے تعلق ہو اگر وہ بے گناہ ہے تو انہیں رہا کیا جائے اور اگر وہ کسی بھی جرم میں ملوث ہیں تو آپ کی عدالتیں ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ عدلیہ سے حل نہیں ہوسکتا تو پھر اتنے بلند و بالا عمارتیں بنائے گئے ان پر تالے لگائے جائے۔ جس طرح آزاد صحافت اور لوگوں کے زبانوں پر تالے لگادیے گئے ہیں اسی طرح عدالتوں پر تالے لگا دیے جائے تاکہ لوگ اپنے لیے انصاف کے دوسرے ذرایعے ڈھونڈ کر وہاں جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اقتدار کیلئے نہیں بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے حکومت سے مطالبات کیے، ہم نے ایک سال کی مدت دی ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم ایک سال تک خاموش رہینگے جب بھی ہمیں موقع ملا ہم انہیں یاد دہانی کرائینگے۔

اختر مینگل سے سوال کیا گیا کہ بلوچستان اسمبلی میں اکثریت بلوچوں کی ہے جو وہاں پر بیٹھے اقتدار کیلئے تو لڑ رہے ہیں لیکن لاپتہ افراد کے مسئلے پر بات نہں کرتے ہیں، جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اقتدار کیلئے آئے ہیں تو لڑینگے بھی اقتدار ہی کیلئے کیونکہ ان کو لانے والے اقتدار کے لوگ تھے ان لوگوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی بازگشت کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا کہ ایسی صورت میں آپ جام کمال کا ساتھ دینگے یا کسی اور کا تو اختر مینگل کا کہنا تھا کہ کمال ہو یا جمال اس سے ہمیں فرق نہیں پڑتا ہے لیکن ہمیں وہ کمال چاہیئے جو لاپتہ افراد کو واپس لانے کا کمال کرکے دکھائے اور اس طرح کا کمال کرنے والا مجھے ان لوگوں میں دکھائی نہیں دیتا ہے۔