لاپتہ افراد کا درد ۔ مہاران بلوچ

614

لاپتہ افراد کا درد

تحریر۔ مہاران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سیما بلوچ کی فریادیں اور معصوم انسا اور ماہرنگ کے آنسو دل چیر کر رکھ دیتے ہیں، ان کی فریادوں میں ایک پکار ہے، ایک چیخ ہے، اک درد ہے، اک امید ہے.

درد کو صرف محسوس کی جاسکتی ہے لیکن درد کو کوئی بیان نہیں کیا جاسکتا، درد ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو چین سے جینے نہیں دیتا. ایک بے حس اور بے ضمیر انسان اس درد کو اس وقت تک محسوس نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اس درد سے نہ گذرے.

لاپتہ افراد کا درد ہی سب سے اذیت ناک درد ہے، لاپتہ افراد کو اسی لئے لاپتہ کہا گیا ہے کیونکہ وہ لاپتہ ہیں، ہمیں نہیں پتہ وہ کہاں ہیں ہم ان سے بےخبر ہیں زندانوں میں کس اذیت سے گذر رہیں ہیں، ہمیں نہیں معلوم وہ کس حال میں ہیں، نہیں معلوم تو پھر درد اپنی انتہا کو پہنچتی ہے جب ہم اپنے ہی لوگوں سے بے خبر ہوں اور ہم روز اس درد سے گذرتے ہیں اور ایک امید لے کر جیتے ہیں کہ وہ اک نہ اک دن بازیاب ہونگے.

بلوچستان کے تحریک آزادی میں ہزاروں افراد شہید ہوئیں اور ہزاروں لاپتہ ہیں، جو شہید ہوئے ہم انکی شہادت پر فخر کرتے ہیں اور جو لاپتہ ہیں ہم دن رات ان کے درد سے گزرتے ہیں۔.

دشمن ان کے بلوچ نام سے خوفزدہ ہے اور یہی خوف دشمن کو چین کی نیند سونے نہیں دیتا اور وہ ہمارے پیاروں کو اغواء کرکے انہیں لاپتہ کردیتا ہے زندانوں میں قید کرکے ان پر تشدد کرتا ہے.

لاپتہ افراد جو سالوں سے زندانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں وہی لاپتہ افراد ہر وقت آنکھوں کے سامنے ایک تصویر کی طرح دکھائی دیتے ہیں، کبھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتے، کھانا کھاتے وقت،غم کے وقت، خوشی کے وقت وہ آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں اور ان کی آواز کانوں میں گونجتی رہتی ہے اور عجیب خیالات دماغ میں جنم لیتے ہیں.

وہ کس حال میں ہوگا، دشمن اس پر تشدد کرتا ہوگا، اسے اذیت دیتا ہوگا، مارتا ہوگا، ٹارچر کرتا ہوگا، تب درد کی انتہاء ہوتی ہے اور انسان چیخنے لگتا ہے، خون کے آنسو رونے لگتا ہے اور پھر وہ صبر کرتے ہوئے خود کو دلاسہ دیتی ہے اور ایک امید کے سہارے جیتی ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن بازیاب ہوکر آئے گا ضرور آئے گا لیکن اسے زندان میں سالوں گزر جاتے ہیں اور وہ نہیں آتا.

یہی وہ درد ہے جس نے سیما بلوچ کو اپنے بھائی شبیر بلوچ کے لیے نکلنے پر مجبور کردیا اور اسی درد اور امید نے سیما بلوچ ،انسا بلوچ، ماہرنگ بلوچ اور باقی لاپتہ افراد کے لواحقین کو کوئٹہ کے سرد راتوں میں کھلے آسمان تلے بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھنے پر مجبور کردیا. بہت مشکل ہوتا ہے اپنا گھر چھوڑ کر بھوک ہڑتال کیمپ میں زندگی گزارنا اور بہت ہمت دیکھانی پڑتی ہے خود سے لڑنا پڑتا ہے، دشمن سے لڑنا پڑتا ہے، خوف سے لڑنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ ایک امید لیکر سامنے آتے ہیں اور اپنے پیاروں کی تلاش کے لئے احتجاج کرتے ہیں اپنے پیاروں کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔.

وہیں سیمہ بلوچ کی فریادیں اور انسا بلوچ کی آنسو ہمیں پکارتے ہیں کہ آو! ہمارا ساتھ دو، ہمارے پیاروں کی تلاش میں ہماری مدد کرو ہمیں حوصلہ دو ان کی آنسو ہر وقت ہم سے التجا کرتے ہیں کہ آو ہماری آواز بنو اس ظلم کے خلاف اکھٹے ہوجاو آو مل کر دشمن سے اپنے پیاروں کے لیے سوال کریں، ان کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرے وہ ہمیں ہر وقت پکارتی رہتی ہیں۔

انسا بلوچ اور ماہرنگ جنہیں اس عمر میں اپنے سہیلوں کے ساتھ گڑیوں سے کھیلنا چاہیئے انہیں اسکول جانا چاہیے اور وہ اس عمر میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے درد بدر پھر رہی ہیں دشمن سے رد بیانی کر رہی ہیں یہی وہ درد جو ان بچوں کو بھی سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور کرتی ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔