قلات و مستونگ سے لاپتہ نصیر خان اور امداد اللہ تاحال بازیاب نہ ہوسکیں

208

نصیر خان گزشتہ ایک سال سے جبکہ امداد اللہ ساڑے تین سال سے جبری طور پر لاپتہ ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے ضلع قلات اور مستونگ سے جبری طور لاپتہ نصیر خان اور امداد اللہ کئی سال گزرنے کے باوجود تاحال بازیاب نہ ہوسکے ۔

تفصیلات کے مطابق ضلع قلات کے علاقے منگچر سے تعلق رکھنے والے نصیر خان ولد عبدالکریم 13 ستمبر 2017 سے جبری طور پر لاپتہ ہے ، نصیر خان کے لواحقین کا کہنا ہیں کہ انہیں منگچر میں تحصیل کے مقام سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا ۔

بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے اسپلنجی سے تعلق رکھنے والے امداد اللہ ولد محمد حنیف 11 مئی 2015 سے پر لاپتہ ہے۔

امداد اللہ کے لواحقین نے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اسپلنجی کے علاقے شیشار سے فورسز سے حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پے منتقل کردیا تھا جو ساڑے تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال لاپتہ ہے۔

واضح رہے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بلوچ قومپرست حلقوں کی جانب سے گزشتہ کئی سالوں سے بات ہوتی رہی ہے جبکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے گزشتہ دس سالوں سے احتجاجی کیمپ بھی قائم ہے لیکن بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر احتجاج میں گزشتہ اکیس دنوں میں وسعت دیکھنے میں آئی ہے جہاں لاپتہ طالب شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ کے ہمراہ کئی لاپتہ افراد کے لواحقین احتجاج میں شریک ہورہے ہیں۔