قسمت آزمائی کی گھن گرج میں “براس” سے امیدیں – برزکوہی

385

قسمت آزمائی کی گھن گرج میں “براس” سے امیدیں

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان پر پاکستان اور چین کے قبضے اور بلوچ ساحل و وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف اور بلوچ ریاست کی تاریخی و حقیقی جغرافیائی حیثیت کی بحالی کی خاطر دشمن کے یلغار کے خلاف برسرپیکار تین بلوچ آزادی پسند عسکری تنظیموں، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ریپلکن گارڈز کا اشترک عمل وجود میں آنے کے بعد بلوچ راجی آجوئی سنگر(براس)کا باقاعدہ رسمی اعلان ہوچکا ہے۔

یہ تین تنظیموں کا آپسی اتحاد نہیں بلکہ اشترک عمل ہے، اتحاد و اشتراک عمل اور انضمام میں واضح فرق ہوتا ہے۔ اتحاد صرف چند نقاط پر متفق ہونے کا عمل ہوتا ہے، اشترک عمل صرف اور صرف تنطیمی الگ الگ نام و پہچان اور صرف تنطیمی سسٹم اور اسٹریکچر الگ، لیکن تنظیموں کا مقصد اور نظریہ و فکر سے لیکر من و عن تمام چیزوں پر مکمل مکمل اتفاق ہوتا ہے اور اشتراک عمل بنسبت اتحاد سے زیادہ انضمام سے انتہائی قریب تر ہوتا ہے، آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ انضمام کے لیئے اہم پیش رفت اور اہم قدم اور انتہائی قربت خیز ہوتا ہے۔

تینوں بلوچ مسلح تنظیموں کا اشتراک عمل ایسے وقت میں ظہور پذیر ہوا ہے، جب ہرطرف دشمن پاکستان کے ساتھ ساتھ بلوچ گل زمین پر مختلف توسیع پسند عزائم رکھنے والے قوتوں کی یلغار کی گھن گرج ہے۔

ہم من حیث القوم اس وقت ایسے عہد سے گذر رہے ہیں، جہاں ایک طرف تن تنہائی اور مایوسی کے صحرائیں ہیں، دوسری طرف امیدوں کی نخلستان نظر آرہا ہے، اب بلوچ قوم کو تن تنہائیوں اور مایوسیوں کی صحراوں سے انتقاء اور امیدوں کی نخلستانوں کی طرف لیجانے میں “براس” کو قسمت آزمائی سے گذرنا ہوگا۔

یہ ضرور بلوچ قوم خاص کر باشعور بلوچ نوجوانوں کے لیئے باعث حوصلہ، باعث خوشی، قابل تحسین، قابل فخر اور قابل داد عمل اور قدم ہے اور ہونا بھی چاہیئے لیکن دوسرے طرف “براس” کے اعلیٰ قیادت اور جہدکاروں کےلیئے ایک گھٹن پرکھٹن اور پرآزمائش امتحان ہے، وہ اب کیسے اور کس طرح اس موجود صورتحال، حالات اور ماحول میں اپنی قومی جہد کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ عالمی قوتوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ جان لینگے کہ آگے برق رفتاری سے تبدیل ہونے والی حالات کس طرف کروٹ بدلینگے کیونکہ میری اپنی ذہانت، ادراک اور اپروچ کے مطابق آج جو تصویر اور منظر ہماری نظروں کے سامنے گھومتا اور پھرتا ہوا نظر آرہا ہے، شاید وہ کل اس طرح ہرگز نہیں ہو۔

ضرور اس حوالے سے “براس” کی اعلیٰ سطحی قیادت بھی سرجوڑ کر سوچ و بچار اور غور و فکر کرکے ازسرنو حکمت عملی اور پالیسیاں ترتیب دے چکے ہونگے۔ اسی توقع کے پیش نظر اور پس منظر میں ہم جیسے جہدکاروں کی امیدیں “براس” سے وابستہ ہونا فطری عمل ہے۔

اس حقیقت میں آج کوئی دورائے نہیں، بلکہ یہ بالکل صاف و شفاف آئینے کی طرح واضح ہے کہ کوئی کم عقل اور کم بخت ہی ہوگا جو اس حقیقت سے کافر ہوکر روگردانی کرلے کہ ایک منظم مضبوط اور شعوری قوت اور طاقت کے بغیر آنے والی ہواؤں کا رخ اپنے حق اور حمایت میں لانا ممکن ہوگا۔

قابض پاکستان سمیت افغانستان ایران اور عرب ممالک کی اندرونی صورتحال اور حالات اس وقت کی طاقتور قوتیں امریکہ، اسرائیل، روس، چین، بھارت، عرب وغیرہ کی آپسی ایک دوسرے کے ساتھ حمایت، مخالفت، سرد و گرم جنگ کی لہر اور رسی کشی میں بلوچ قوم اور بلوچستان کہاں پر کھڑا ہے؟ آگے پیچھے کنارے درمیان آخر یا مکمل غائب اس وقت سب سے اہم سوال ہے؟ جو بار بار لمحہ بہ لمحہ ذہن پر ہتھوڑے مار مار کر سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرتا ہے؟

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے، بلوچوں کا وطن بلوچستان اپنی سیاسی، معاشی، جغرافیائی اور فوجی اہمیت اور حیثیت، قدرتی وسائل اور ساحل کی وجہ سے مالا مال ہوکر آج دنیا کی نظروں میں ایک خوبصورت سبزہ زار چمن اور سونے کا چڑیا ہے، اگر سبزہ زار خوبصورت چمن پر بے لگام اور مست ہاتھی ایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑے تو نتیجے میں اس خوبصورت سبزہ زار چمن اور سونے کی چڑیا کی حالت کیا ہوگی؟

سب سے اہم سوال اور سب سے اہم پریشانی اور فکر اس وقت اسی بات کی ہے، اسی پریشانی اور فکر میں کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اس عہد میں سے گذر کر من حیث القوم بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک کا مستقبل کیسا اور کس طرح ہوگا؟ اور بے شمار بلوچ شہداء کے خون کا قیمت کیا ہوگا؟

یہ اب “براس” کی اعلیٰ قیادت اور جہدکاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کی باریک بینی سے جانج پڑتال کرکے انتہائی سوچ و بچار کے ساتھ غیرروایتی انداز میں بلوچ قومی جہد کے حوالے سے نئی راہیں متعین کریں اور خاص کر مہذب دنیا کے سامنے اپنی ایک واضح پالیسی اور حکمت عملی واضح کردیں کہ بلوچ قوم اس وقت کس حالت اور کس پوزیشن میں ہے اور کیا چاہتا ہے؟ اور دنیا کے ساتھ کیسا اور کس طرح کے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے؟

اب بلوچ قوم کو اپنی عوامی طاقت و قوت اور شعور سے بحثیت ایک فریق کے دنیا کے سامنے جلد از جلد منوانا ہوگا۔

اسی لیئے “براس” کے دوستوں کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ غیرروایتی انداز میں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اپنی قومی پروگرام اور قومی پالیسیوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ساتھ قومی آزادی کی جنگ کو مزید منظم و سائینٹفک بنیادوں پر ترند و تیز کردیں، اسی میں ہی بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کی بقاء اور کامیابی منحصر ہے یہ ایک پرآزمائش عمل ہی سہی لیکن پرامید عمل بھی ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔