قربانیوں کی لَڑی – میرک بلوچ

152

قربانیوں کی لَڑی

میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارے اس حسین و خوبصورت سیارے پر زندگی رواں دواں ہے۔ اس عظیم سیارے پر ان گنت حادثات، آفات، انقلابات آچکے ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ یہ سیارہ جنگوں سے بھی گذر چکی ہے۔ اور اب بھی گزر رہی ہے۔ تہذیب و تمدن کی تاریخ ساز ساعتیں بھی دیکھ چکی ہے۔ پر بہار اور پر روشن اوقات سے بھی گزری ہے۔ اس سیارے پر مختلف اقوام آباد ہیں۔ مختلف ریاستیں و مملکتیں وجود رکھتی ہیں، ان اقوام و ممالک کو صرف حقیقی معنوں میں ایک مساوات پر مبنی عالمی برادری ہی صحیح طرح جوڑ سکتی ہے۔ یورپ، شمالی و جنوبی امریکہ، کیریبئن ،اوشیانہ ،ایشیاء و افریقہ، انٹارکٹکا اس سیارے کے خوبصورت پھول ہیں اور یوں ہمارا یہ سیارہ اس نظامِ شمسی اور اس بھرپور کائنات کا ایک چھوٹا سا گلدستہ ہے۔ چھوٹا سا اسلیئے کہ اس عظیم کائنات میں اربوں کھربوں کہکشائیں ہیں اور ان میں اربوں کھربوں سیارے ہیں۔

مادرگلزمین بلوچستان اس گلدستے کے بڑے پھول ایشیاٰء کا حصہ ہے۔ عظیم ایشیاء میں واقع بلوچ وطن ہزاروں سالوں سے اپنے سپوتوں کو سینے سے لگائے استادہ ہے۔ اور ان سپوتوں نے اپنی سرزمین مادروطن کا ہر دور میں حفاظت کرکے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حقِ فرزندی ادا کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔ ان سپوتوں نے حملہ وار اغیار کو کبھی بھی پنپنے نہیں دیا۔

13 نومبر 1839ء اس عظیم فرزند کی قربانی یاد دلاتا ہے، جسے دنیا میر محراب خان شہید کے نام سے جانتی ہے۔ انگریز مکار سامراج نے بڑی سازشوں اور کچھ غداران وطن کو ساتھ ملاکر وطن پرست خان میر محراب خان اور اس کے جانثار ساتھیوں کو شہید کرکے وطنِ عزیز کے حصّے بخرے کئے اور مفاد پرست سرداروں کو نوابین کا خطاب دیکر جابرانہ ظالمانہ سرداری سسٹم کو آمرانہ اختیارات سے نوازا۔

یہیں سے بلوچ قوم پر المیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ مگر گلزمین کے عظیم فرزندوں نے مکار برطانوی سامراج کو سانس لینے کا کبھی موقع نہیں دیا۔ نورا مینگل، بلوچ خان اور دوسرے فرزندوں نے مادرگلزمین کی آزادی کیلئے لڑتے رہے اور قربان ہوتے رہے۔ قربانیوں اور جدوجہد کا یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں 11اگست 1947ء تک جاری رہا۔ 11اگست 1947ء کو بلوچ گلزمین آزاد ہوگیا۔ مگر 27 مارچ 1948ء کو پڑوسی نومولود ریاست نے بلکل برطانوی استعمار کی طرح گہری سازشوں کے ذریعے تمامتر اخلاقیات کو پامال کرکے اور بین الاقوامی سرحدوں کو روند کر گل زمین پر جابرانہ قبضہ کیا۔ اس ظالمانہ قبضے کیخلاف بلوچ سپوت پھر سے سر بکفن ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے۔

قبضہ گیر کا جبروتشدد خونخوار مکاریوں کے ساتھ جاری ہے۔ مگر بلوچ قومی آزادی کی عظیم تحریک جدید انداز سے عظیم جانگسل قربانیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے ہر زندہ قوم اپنے شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ان فرزندوں کا یوم مناتی ہے۔ بلوچ قوم اپنے عظیم شہدا کا یوم 13 نومبر کو مناتی پے۔ اور اپنے بہادر شہدا کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔

مگر یہ یاد رہے کہ صرف ایک دن شہدا کو یاد کرکے یہ مت سمجھ لیں کہ آپ نے اپنا قومی فرض ادا کیا۔ چند کانفرنسوں اور چند پریس ریلیز سے قومی فرائض ادا نہیں ہوا کرتے۔ بلکہ جاری تحریک کو مذید سائنسی بنیادوں پر بہترین حکمت عملی، تدبر، دانائ سے سمتیں دیکر اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرکے انتہائ جرآت و بہادری سے ہی منزلِ مقصود تک پہنچا جاسکتا ہے۔

بقول لینن

کبھی اور بعض اوقات دھائیاں گزرتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتا لیکن کبھی چند لمحے ہی فیصلہ کن ہوتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔