کوئٹہ میں لاپتہ طالب علم شبیر بلوچ کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتال جاری
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ شبیر بلوچ کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں لواحقین کا احتجاج آٹھویں روز بھی جاری رہا، شبیر بلوچ کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے نیشنل پارٹی کے رہنماء مہیم بلوچ، ہائی کورٹ بار کونسل کے نائب صدر سلیم اختر، ایڈووکیٹ عمران بلوچ، ایڈووکیٹ مظفر بلوچ و دیگر افراد کی بڑی تعداد نے کیمپ کا دورہ کیا۔
اس موقعے پر نیشنل پارٹی کے رہنماء مہیم بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شبیر بلوچ کو دو سال سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور قانونی لحاظ سے کسی کو اس طرح غائب کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے لاپتہ افراد کے حوالے سے کہا کہ حکومتی ادارے تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرے، اگر کوئی مجرم ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور اگر کسی کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا گیا تو ان کے حوالے سے بھی ہمیں بتایا جائے۔
مہم بلوچ کا کہنا تھا کہ دنیا کے کسی بھی جنگ زدہ خطے میں اس طرح لوگوں کو لاپتہ کرنے کے واقعات نہیں ہوئے ہیں جس طرح ہمارے ساتھ گذشتہ ستر سالوں سے ہورہا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ماما قدیر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ کئی سالوں سے اس مسئلے کے حوالے سے پیش پیش رہے ہیں اور دنیا کو آگاہی دیتے رہے ہیں لیکن افسوس بلوچستان اسمبلی میں بیٹھے ہوئے افراد نے ایک دن بھی لاپتہ افراد کے لواحقین کے کیمپ کا دورہ نہیں کیا۔
واضح رہے شبیر بلوچ بی ایس او آزاد کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری تھے جب انہیں 4 اکتوبر 2016 کو بلوچستان کے علاقے کیچ سے لاپتہ کردیا گیا تھا۔ بی ایس او آزاد اور ان کے لواحقین کا موقف ہے کہ شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ اور ان کی بیوی دیگر افراد کے ہمراہ گذشتہ ایک ہفتے سے کوئٹہ میں شبیر بلوچ کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہی ہے۔ گذشتہ روز ان کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا۔