فدائینِ وطن
تحریر: نودان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج وہی کچھ تحریر کرنے جارہا ہوں، جو اس معاشرے اور ارد گرد کے حالات سے سیکھا اور جو کچھ محسوس کیا۔
بچپن میں جب بہت سے چیزوں کی سمجھ نہیں تھی، تب کچھ ایسے لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جو مسلح تھے، جن کے پاس بندوقیں تھیں، جنہیں ارد گرد کے لوگ سرمچار کے نام سے پکارتے تھے۔ اس دؤران یہ لفظ کافی مشہور تھا ہر کوئی خود کو سرمچار تصور کرتا تھا۔ ہم جب بھی موٹر سائیکل پر سوار مسلح لوگ دیکھتے انکے پیچھے بھاگتے اور چلاتے رہتے سرمچار جارہے ہیں، سرمچار جارہے ہیں، یہ علم نہیں تھا کے یہ کیسے لوگ ہیں کیوں انکو سرمچار کہا جاتا ہے اور اس لفظ سرمچار کے معنی کیا ہیں، کچھ بھی معلوم نہیں تھا بس سرمچار بندوق والے لوگ، اسی بندوق کے شوق کی وجہ سے شاید لفظ سرمچار سے محبت ہوگئی تھی۔
جب وقت اور حالات بدلتے گئے، کچھ لوگ انکی مخالفت کرنے لگے کہ یہ سرمچار بلاوجہ لوگوں کو مارتے ہیں، بے گناہ لوگوں کا قتل کرتے ہیں۔ اسی دؤران ہمارے علاقے میں ایک شخص کو کسی نے فائرنگ کرکے قتل کردیا، یہ خبر علاقے مین پھیل گئی کہ اسے سرمچاروں نے قتل کردیا ہے اور قتل ہونے والے شخص کے خاندان والے سرمچاروں کو بددعا دینے لگے، اس وقت نا سمجھ بچہ تھا وہاں کھڑا ہوکر لوگوں کو روتے چلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا، ناسمجھی تھی کچھ بھی سمجھ نا تھا چونکہ مرنے والا شخص میرا قریبی تھا تو میرے ذہن میں بھی یہی بیٹھ گیا کہ سرمچار بُرے ہیں، بے وجہ لوگوں کو مارتے ہیں اس واقعے کے بعد علاقے میں جو لوگ مسلح تھے انکو لوگوں نے پہچانا اور سب مشہور ہوئے کے فلاں فلاں سرمچار ہے اور ان لوگوں نے اس شخص کو قتل کیا تھا۔
پھر ایک دن تین ایسے ہی لوگوں سے ملاقات ہوا، جو سرمچار تھے ان میں سے کسی ایک نے مجھ سے پوچھا کیا تمہیں پتا ہے کہ ہم نے یہ بندوق کیوں اٹھائی ہے؟ میں نے کوئی جواب نہی دیا شاید میں اس وقت اس سے کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ میں نے ہنس کر بات ٹال دی ان میں سے کسی دوسرے نے مجھ سے ہنس کر کہا کہ یہی کہو کہ تم غنڈے ہو، اسلئے تمہارے پاس بندوق ہے میں خاموش وہاں سے نکل گیا، پھر ہمیشہ ایسی ہی خبریں سُننے کو ملیں کہ فلاں جگہ ریاستی فوج سے جھڑپ ہونے کے باعث سرمچار شہید ہوا اور اسکی شہادت پر علاقے میں ہڑتال ہوتا اور سارا علاقہ بند روڈوں پر کچھ لوگ نکلتے جو شاید انکے ہمدرد دوست ہمراہی تھے، نعرہ لگاتے کہ تم کتنے سرمچار ماروگے ہر گھر سے سرمچار نکلے گا، ہم کیا چاہتے ہیں آزادی، میں بھی اس ہجوم میں شامل ہوتا اس وقت اس قدر باشعور نہیں تھا کہ ان نعروں کا مطلب سمجھ سکوں سرمچار کون ہیں آزادی کیا ہے۔
جب ہوش سنبھلنے لگے، جوان و با شعور ہوئے تو حالات یکسر بدل گئے تھے، وہ بھی دؤر تھا جب ان دو لفظوں کیلئے لوگ قافلوں کی شکل میں سڑکوں پر نکلتے تھے، جن نعروں سے علاقہ گونج اٹھتا تھا، آج وہ دو الفاظ بولنے سے لوگ پرہیز کرتے تھے، ایسے ان لفظوں سے دور بھاگے جارہے تھے، شاید ان لفاظ کو کھلے عام بولنے سے موت واجب ہوچکا ہو اب سمجھ آیا کہ سرمچار محض ایک لفظ نہیں بلکہ سرمچار نام ہے مقصد کا، سرمچار نام ہے زندگی کا بھی موت کا بھی، قربانی کا بھی، مخلصی کا بھی، بہادری کا بھی اور وفاداری کا بھی۔
جن لوگوں کو سرمچار کہا گیا تھا جن کے مخالف سینکڑوں تھے جن کو غنڈہ لٹیرہ کہتے لوگ تھکتے نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنے جہد پر ٹک کر یہ ثابت کیا کہ ہم بس شوق کے راہی نہیں تھے، ان مشکل کھٹن حالات میں اپنے قدم اس راہ میں ٹکائے ہوئے تھے۔ اور خوف کے مارے لوگ خاموش تھے بے بس تھے کچھ کرنے یا بولنے سے رہے لیکن وہ مسلح افراد وہ سرمچار وہ بندوق والے سپاہی میدان جنگ میں اپنی جان نچھاور کرکے سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنے انکے مردہ ضمیر کو اپنے خون سے دوبارہ زندگی دینے کی کوشش کر رہے تھے، جنہیں پاگل کہا جا رہا تھا، اصل میں وہ اپنے قوم کی غلامی سے واقف تھے، وہ اپنے قوم کی بےبسی، لاچاری، بزگی کو سمجھ چکے تھے۔ تب ہی اس درد بھرے راستے پر چلنے کیلئے تیار ہوئے تھے۔
وقت گزرتا گیا حالات بدل گئے سرمچاروں نے شہر چھوڑ کر پہاڑوں کا رخ کیا، ریاست کی طرف سے سخت جارحیت کا آغاز ہوا، جس کے لپیٹ میں آکر ہزاروں گھروں کے چراغ بجھ گئے ایک خود درد آنسو غم غصے سے بھرا ماحول پیدا ہوا، ماں بہنوں کی سسکیاں انکی آنکھوں سے ٹپکتے وہ خون کے آنسوں جن کو دیکھ کر دل پھٹ رہا تھا لیکن ریاست نے ایسا خوف کا عالم پیدا کیا ہوا تھا کہ اب بھی بے ضمیر لوگ بے بس لاچار پڑے ہوئے تھے اور دشمن ظلم کی ہر حد پار کر چکا تھا۔
پہاڑوں میں رہنے والے سرمچار سب دیکھ رہے تھے محسوس کر رہے تھے اس بڑھتے ہوئے ظلم کے خلاف وہ بھی ایک قدم آگے بڑھے اب جب دو بدو دشمن سے لڑائی مشکل ہو رہا تھا، وہ سرمچار جو آج کامل تھے وہ ایسا کام سرانجام دینے کیلئے تیار ہوئے، جو ہم جیسے لوگوں کی محدود سوچ سے بہت وسیع تھا۔
حالیہ دنوں میں ہی تین سرمچاروں(فدائیوں) کی شہادت میرے دل و دماغ پر گہرا اثر کرگیا، ہم جیسے بے کردار لوگ خود کو مکمل سمجھتے لیکن اب میں خود کو تسلی نہیں دے پا رہا، خود سے لڑ کر اپنے نفس کو سمجھا رہا ہوں کہ ہاں میں مکمل ہوں پھر یہی سوچتا ہوں کہ اگر میں کامل ہوتا تو میرے ذہن میں ایسے منفی سوال جنم ہی نہیں لیتے، مجھے خود کو جھوٹی تسلی دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
کامل ہم تب ہونگے، تسلی ہمیں تب مل سکتا ہے، جب ہم شہیدوں کے فلسفے پر پورے ایمانداری سے رواں ہوں تب ہمیں خود کو جھوٹی تسلی دینے کی ضرورت نہیں ہوگی، پھر سکون خود ہمیں ڈھونڈ کر ہمارے روح کو تسلی بخشیگا کے ہاں اب تم کامل ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔