افغان طالبان نے صدر اشرف غنی کی جانب سے مذاکرات کے لیے کمیٹی کےقیام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان صدر سے بات کرنا وقت کا زیاں ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ “طاقت سے محروم اور غیر ملکیوں کے مسلط کردہ عناصر سے بات کرنا لاحاصل ہے کیوں کہ کمزور فریق فیصلہ کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔
بیان میں طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ طالبان کی لڑائی امریکی حکومت سے ہے اور وہ اسی کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔
طالبان کا یہ بیان افغان حکومت کے لیے ایک اور دھچکا ہے جو ماضی میں بھی بارہا طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کرچکی ہے لیکن طالبان ہمیشہ اس کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو مسترد کرتے آئے ہیں۔
بدھ کو جنیوا میں جاری ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کے دوران افغان صدر نے طالبان سے مذاکرات کے لیے 12 رکنی اعلیٰ کونسل کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
صدر غنی نے کہا تھا کہ ان کی حکومت نے طالبان کے ساتھ مجوزہ امن مذاکرات کے لیے طریقۂ کار وضع کرلیا ہے جس کے تحت نو تشکیل شدہ کمیٹی جنگجووں سے مذاکرات کرے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان صدر نے اس کمیٹی کے قیام کے اعلان بظاہر امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کے دباؤ پر کیا تھا جو طالبان کے ساتھ اپنی بات چیت میں افغان نمائندوں کی شرکت چاہتے ہیں۔
زلمے خلیل زاد گزشتہ دو ماہ کے دوران کم از کم دو بار قطر کے دارالحکومت دوحا میں افغان طالبان کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کرچکے ہیں۔
رواں ماہ اپنے دورۂ کابل کے دوران زلمے خلیل زاد نے امید ظاہر کی تھی کہ طالبان کے ساتھ اپریل 2019ء تک امن معاہدہ طے پاجائے گا۔
بدھ کو امریکی نشریاتی ادارے ‘پی بی ایس’ کے ساتھ ایک انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے ایک بار پھر افغان تنازع کے جلد حل کی ضرورت پر زور دیا۔
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ افغان عوام گزشتہ 40 سال سے جنگ کا سامنا کر رہے ہیں اور اسی لیے ہم [امریکی] اس المیے کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ضروری ہے کہ افغان ایک دوسرے کو قبول کریں اور اتفاقِ رائے سے امن کے حصول کی راہ کا تعین کریں۔