شہدا ءِ مشن بیرگیر – آکاش بلوچ

336

شہداءِ مشن بیرگیر

تحریر: آکاش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بہت کم ہی انسان اس قدر قابل ہوتے ہیں کہ وہ اپنے قلم سے اپنے احساسات و دل کی باتین بیان کر سکیں، یہ سنگت بیرگیر بلوچ اپنے ایک آرٹیکل میں بیان کرچکا ہے، حقیقت اسی طرح ہے ہر سنگت کبھی اپنے سنگتوں کے بارے میں لکھنا شروع کرتا ہوگا اسکے ساتھ یہی کیفیت ہوگا، وہ اپنے سنگت کے ساتھ گذرے ان لمحوں کو بیان نہیں کر پائے گا، جو سنگت نے اپنی زندگی میں اپنے اس ساتھی کے ساتھ گزارے ہیں۔ جہاں لمحے ہی زندگی ہوا کرتے ہیں، اسکے جنگی صلاحیتوں کو، اسکے مسکراہٹ کو، اسکے احساس کو، اسکے ساتھ گزرے لمحات کو، اسکے ساتھ سرمئی راتوں کو، سویر تک کے جاگنے کے وقت کو، بندوق کی گڑگڑاہٹ میں ساتھ دیتے ہوئے حوصلوں کو، لہو لہان زخمیوں پر پٹی باندھتے لمحے، آنکھوں میں ابھر کر آنے والے آنسوؤں کو، ایک کے سینے میں سلگتے آگ کی تپش دوسرے کو بے تاب کرنے کو، کہاں تک کیسے بیان کرے گا وہ لمحہ جو انکے ساتھ گزرے؟ وہ اب باقیوں کے لیے جینے کا سامان ہیں اس آخری وقت تک۔

ہر وقت کوشش ہوا پر بیان نہ ہوسکا، آج پھر اسی ٹوٹے قلم سے اپنے سنگتوں پرکچھ لکھنے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے قلم اٹھارہا ہوں، بلوچستان کی تاریخ میں ہزاروں ورنا پیر قربان ہوئے، ماؤں نے اپنے لخت جگروں کی لاشیں تک نہ دیکھیں، پھر بھی اس قربانی کے کارواں کو ہمت سے جاری رکھا، انہی شہدا کے کارواں میں شامل 8 نومبر 2012 کو سوراب میں حادثاتی واقعے میں شہید ہونے والے بہادر سنگت عبدالحئی، سنگت گلزار اور سنگت کرم شاہ ہم سے جدا ہوئے۔ یہ سنگت مشن بیرگیر کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔

ایسے بہادر تاریخ کو اپنے لہو سے عرش پر لکھتے ہیں اور ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں، 8 نومبر 2012 کو شہید ہونے والے وطن کے عظیم سپوتوں میں سنگت عبدالحئی عرف نثار جان جسے میں اپنا آئیڈیل مانتا ہوں، جسکی زندگی نے ہمیں جینے کا طریقہ سکھایا، جس کے ساتھ چل کر دوست و دشمن کی پہچان ہوئی، حئی عمر میں ہم سے چھوٹا تھا مگر کردار میں چلتن بھی مقابلہ نہ کرسکے، ایسا سنگت جس کے ساتھ رہنے والے ہر سنگت میں نثار دکھائی دیتا۔ شہید حئی کی شہادت دل پر گزری نہ بھرنے والا زخم ہے، مگر حئی کی مخلصی، پختہ ایمان، دلجان جیسے بہادر پیدا کرتا رہے گا۔ سنگت نثار کے سنگت میں شامل کام سیکھنے والا دلجان بھی استاد کے رتبے پر فائز ہوا، ایسے نوجوان جو اپنے نظریئے پر قائم رہ کر ثابت قدم ہوتے ہیں اور آخری گولی آخری سانس تک لڑتے ہیں۔

بلوچستان کی مٹی جنگجو و بہادر حئی پیدا کرتی رہے گی، جو مخلصی، ایمانداری سے چل کر ریحان و دلجان بن کر آخری گولی کا انتخاب کرکے ریحان جیسا عظیم مرتبہ پا کر اس سرزمین کی حفاظت کرتے رہیں گے۔

شہداء مشن بیر گیر میں شامل شھید کرم شاہ عرف طارق جان وطن کا ایک سچا مخلص دوست، جو ہر وقت دشمن کی نیندیں حرام کرنے کی جستجو میں رہتا۔ دشمن پے وار کرنے کے لیئے ہر وقت بے تاب رہتا، یہی وجہ تھی کہ شھید طارق نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے وطن کی خدمت کا بیڑا اٹھایا۔

شھید طارق نے اتحاد و اتفاق کو قومی غلامی سے نجات و طاقت کا زریعہ قرار دے کر بی ایل اے کے دوستوں کے ساتھ مشترکہ کام کرنے اور علاقے میں دوستوں کا کنٹرول مضبوط کرنے کے لیے کبھی مکران تو کبھی شور قلات کا سفر کرتا رہے تاکہ زیادہ سے زیادہ دشمن کو نقصان پہنچایا جا سکے-

اس دؤر یکجہتی کا نشان بننے والے شہدائے بیرگیر کے بعد شھید دلجان و شھید بارگ کا ایک ہی مورچے میں آخری گولی کا انتخاب کرنا شھید طارق و نثار کی جدو جہد کی یاد تازہ کرتا ہے-

مشن بیرگیر کا ایک بہادر سپاہی شھید گلزار اپنے گھر کا واحد کفیل اور اپنے بہن بھائیوں کو سنبھالنے والا تھا لیکن جو بزگی و بدحالی جو ہمارے سماج میں آس پاس کے ماحول میں یا شہروں و دیہاتوں سمیت ہمارے گھروں میں ہے، اس کی بنیادی وجہ ہماری قومی غلامی ہے، شھید گلزار نے جب اس راز سے واقفیت حاصل کی کہ جب تک وطن غلام ہے جب تک سرزمین غیروں کے قبضے میں ہے تب تک ہم انسانی وقار تک پہنچ نہیں سکتے۔

شھید گلزار نے ابتدائی تربیت حاصل کرنے کے بعد سوراب میں اپنی قومی خدمات انجام دینا شروع کردیا ایک انتہائی اہم مشن کو انجام دینے کے دوران شھید ہوکر بلوچ گل زمین کی گود میں آسودہ خاک ہو گئے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔