شومئی قسمت اپنے دیس میں پرائے ہیں
تحریر۔ دارو بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ تاریخی حوالے سے ایک قوم اور بلوچستان کا حصہ ہے، اس کی ہزاروں سال کی تہذیب، تمدن، ثقافت، زبان، رہن سہن حتیٰ کہ قدیم تہذیب اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ بلوچ بلوچستان کے اصل وارث مقامی باشندے اور اسی زمین ہی کے رہنے والے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بات بھی حقیقت مانی جاتی ہے کہ وہ پانچ سو سے زیادہ قدرتی معدنی وسائل سمیت ساحل، میدان، جنگلات اور وسائل سے مالا مال بلند و بالا پہاڑوں کے نگہبان (قرون وسطیٰ سے )چلے آرہے ہیں۔ مجموعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ کرہ عرض میں یہ خطہ قدرتی طور پر امیر ہی چلا آرہا ہے، مگر اس میں بسنے والے اس کے اصل وارث، غربت میں انتہائی پست زندگی گذارنے پر مجبور کیئے جاچکے ہیں۔ یہ احسان ان پر ہر طبقہ، قوم، فرقہ، اہل زبان، تہذیب یافتہ، بد تہذیب، گورے، کالے، عالم، جاہل، عرب، چور و لٹیرے، عجم گویا ہر اس طبقے نے کیا ہے جس کے ہاتھ میں طاقت رہی ہے۔
حسب سابق وہی سلسلہ ہنوز پیچ و تاب سے رواں دواں ہے۔ تاہم اب وسائل لوٹنے کیلئے عالمی دنیا کے آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کرتین ممالک نے کمر کس کر ہل چلانا ایک طرف تو دوسری طرف بلوچ قوم کو چکیوں میں پیسنے کا بے رحمانہ عمل طاقتور ممالک کے انگلیوں پر بیٹھ کرشروع کر رکھا ہے۔ کسی نے چین سے تو کسی نے انڈیا اور امریکہ سے تھپکی لینا پسند کیا ہے۔ آپ بھی انھیں درست پہچانتے ہیں کہ پاکستان، چین،ایران، انڈیا اور افغانستان امریکہ کے کاندھے پر چڑھ کر اپنے پیٹی ٹھیکداروں ،گجر، پنجابی اور نام نہاد طالبان کے ہاتھوں بلوچ قوم کے وسائل لوٹنے کا بیڑہ اٹھا چکے ہیں۔ وسائل کے استحصال سے بلوچ نے ان کا جب بھی ہاتھ روکنے کی کوشش کی ہے، تو انھیں اپنے مقامی خوانچہ فروشوں، مذہبی شدت پسندوں، مافیا، سرداروں و نوابوں سمیت مقامی چوروں، ڈاکووں اور جواریوں کے ذریعے راستے سے ہٹاکر غائب کیا جا چکاہے۔
وحشی قا بض ایک طرف ان پر ظلم کے پہاڑ گرانا اس وقت تک جاری رکھے ہوئے ہے، جب تک کہ وہ موت کے منہ میں چلے نہ گئے ہوں۔ قابل ذکر بات یہ کہ پاکستانی اذیت گاہوں میں کسی بلوچ کی موت واقع ہونے پر قابض کیلئے سونے پر سہاگا بن جاتا ہے۔ ان ہی وسائل لے جانے والے ممالک خصوصاً چین کے ہاتھوں شہیدوں کے جسمانی، اعضاء، دل ، گردے آنکھیں وغیرہ بیچا جاتا ہے۔
الغرض بلوچستان میں انسان سمیت قدرتی پیدا ہونے والے وسائل انکے لئے کمائی کا باعث ہیں، جنھیں اسلامی زبان میں مال غنیمت کہا جاتا ہے، بد قسمتی سے انسانوں کے نسل کشی اور انکے اعضاء بیچنے والا ملک ناپاک اپنے آپ کو اسلام کا ٹھیکیدار اور اسلامی خلیفہ مانتے اور کہلواتے ہیں۔ دوسرے ممالک یا اسلامی ممالک کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ پاکستان جیسا وحشی ملک اپنے آپ کو اسلامی قلعہ کہلواکر کیاگل کھلا رہا ہے؟ اپنی آنکھیں کھولیں گستاخی معاف اندھوں کی آنکھیں جب دیکھتے ہی نہیں تو وہ بند ہوں یا کھلے کوئی فرق نہیں پڑتا یعنی استحصالی ممالک دنیا کے حمام میں ننگے ہیں کہ شرم گاہ ڈھانپیں کوئی فرق نہیں پڑ تا۔ بس ہزاروں سالوں سے بلوچ کا استحصال جاری ساری ہے۔
بلوچستان کے ماضی کو چھوڑ کر کچھ لمحے کیلئے حال کاجائزہ لیتے ہیں، تو بد قسمت بلوچ اپنے وطن میں دن بدن سکڑتا دکھائی دے رہاہے۔ کوئی انھیں کے گھر میں گھس کر انھیں ہی دہشت گرد قرار دیکر انکی نسل کشی کر رہا ہے، تو کوئی بارڈر کراس اور غیر قانونی داخلے اور دس لیٹر ڈیزل سمگلنگ کرنے اور غیر قانونی رہائش کا بہانہ مناکر انھیں صفحہ ہستی سے مٹاتا ہے یا عقوبت خانوں میں بال بچوں سمیت پھینک دیتا ہے۔ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان ایران اور افغانستان سے نسل کشی میں اول نمبر پر ہے اور دنیا کے گونگے بہرے اور اندھے تہذیب یافتہ ممالک بھی جانتے ہیں کہ پاکستان بلوچ کے ساتھ بدمعاشی میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرہاہے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ روزانہ بلوچ بستیوں میں پاکستانی درندہ فوج بمباری کرکے انسانی جان اور مال کا صفایا کر رہا ہے، انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ اجتماعی قبریں پاکستان کے ایجنسیوں اور اسکے مقامی ڈیتھ اسکوائڈز کے مرہون منت ہیں، انھیں بلوچ خواتین کی پاکستانی آرمی، ملیشیا اور ایجنسیوں کے ہاتھوں ریپ ہونے کا بھی علم ہے مگر وہ چپ کا روزہ توڑنے کیلئے اپنے مفادات حاصل کرنے کی خاطر تیار نہیں دکھائی دیتے کیونکہ خدشہ ہے کہ جب لب کشائی کریں گے تو کہیں گرم سمندر تک پہنچنے سے محروم نہ رہ جائیں۔
دوسری جانب جو بلوچ کسی زریعے پاکستان کے ظلم جبر سے اکتا کر جب وہ اپنے ہی وطن کے دوسرے علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو انھیں وہاں سے یہ کہہ کر بے دخل کیا جاتا ہے کہ تم تو غیر قانونی رہائش پذیر ہو، یہ حصہ ہمارے قبضے میں ہے لہٰذا تمہیں بے دخل کیا جاتا ہے۔ نتیجتاَ اطلاع ملنے پر گجر بلوچ چادر اور چارودیواری کو لغت مال کرکے خواتین اور بچوں سمیت تمام خاندان کو گھروں سے گھسیٹ کر یا پکڑ کر ایک بار پھر وحشی پاکستان یا پاکستانی طالبان کے حوالے کرتا ہے۔ جب متاثرین اس طرح اپنے بے دخلی اور اس طرح گھر میں گھس آنے کا رونا روتے ہیں، تو انھیں بتایا جاتا ہے کہ ہم گجر کسی بلوچ کے گھر میں پھلانگ کر آنے کو بے غیرتی تصور کرتے ہیں، مگر ہم مجبور ہوتے ہیں جب کوئی ہمسایہ شکایت کرتی ہے کہ یہ رہائشی تو متاثرین ہیں اور پاکستان سے جان بچاکربھاگ آئے ہیں تو ہم کاروائی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا منطق ہے سبحان اللہ؟ ان عقل کے اندھوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر کوئی بھی انسان جان بچاکر ایک ملک سے دوسری ملک پناہ لینے جاتا ہے تو بلا رنگ، نسل مذہب اسے بحیثت انسان گلے لگاکر اس کا تحفظ کرنا چاہیئے کیونکہ دنیا کا دستور یہی سبق دیتی ہے کہ اس کا تحفظ اخلاقی سماجی، تہذیبی یعنی ہر حوالے سے فرض بن جاتاہے اگرجب یہ پناہ لینے والا ہی بلوچ ہو تو سونے پر سہاگا۔ وہ اپنے ہی سرزمین پر ہی تو پناہ لینے آئے ہیں، اسے اس کے سرزمین ہی میں پناہ نہ دینا اور اسے بے دخل کرناانتہائی نیچ اور گری ہوئی حرکت کہلانے کا مستحق ہوگا۔
اب بھی وقت ہے ایران یا افغانستان کو یرغمال بناکر اسکے باسیوں کے سکون برباد کرنے والے پاکستان کے طالبان ہوش کا ناخن لیکر بلوچ قوم کو اتنا مجبور نہ کریں کہ وہ انکے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ہونا یہ چاہیئے کہ مذکورہ ممالک عالمی ادارے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق پاکستان سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے لئے اپنے دروازے کھول کر انھیں گلے لگالیں یہ کام جتنی جلدی ہو کرنا چاہیئے کیونکہ بلوچ کی نسل کشی پاکستان کے ہاتھوں تیزی سے جاری ہے۔ ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کو بھی خود غرضی اور لالچ کے عینک کو اتار کر انھیں مجبور کرکے بتانا ہوگا کہ وہ بلوچ قوم کی نسل کشی کے رویئے کو خیرباد کہنے سمیت انھیں انکے حق حاکمیت اور باعزت پناہ دیں ورنہ۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔