سیما اور زرینہ کے آنسو اور ہمارے سیاسی رویے
حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ دنوں بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں لاپتہ بلوچ طالب علم بی ایس او آزاد کے سابقہ انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ کی بازیابی کیلئے انکی بہن سیما بلوچ اور اہلیہ زرینہ بلوچ نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں ایک ہفتے کے علامتی بھوک ہڑتال کے بعد احتجاجی ریلی نکالی۔ کوئٹہ (شال) جسے بلوچ سیاسی، ادبی و سماجی تنظیمیں اپنا گھڑ کہتی نہیں تھکتی اس میں ہونے والے احتجاج میں کافی جذباتی اور دل دہلانے والے منظر دیکھنے کو ملے۔ لیکن یہ منظر یہ واقعہ دیکھنے کے بعد سوچا تو اندازہ ہوا کہ یہ واقعہ پہلا نہیں اور شاید آخری بھی نہ ہو۔ پھر سوچا کہ اس واقعے میں ایسا کیا تھا جس پر لکھا جائے، کل ایسا کیا ہوا جس پر ہماری اجتماعی سیاسی و سماجی سوچ کو ملامت کیا جائے؟ کل کے واقعے میں ایسی کونسی انوکھی بات تھی جس پر جذباتی ہوکر قلم کشی کی جائے؟ کیا یہ پہلا دفعہ تھا، کیا اس سے قبل یہ سب نہیں ہوا؟ کیا یہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے واقعات نہیں؟ اگر ہاں تو اسی واقعے پر ہی کیوں بولا جائے؟
بلوچ قومی تحریک جو کہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے، جس میں اونچ نیچ، رکنا، چلنا، تھمنا، تھکنا پھر ابھرنے کا سلسلہ جاری ہے اس تحریک میں ہزاروں لوگ شامل ہوئے۔ ہزاروں نے قربانیاں دیں، ہزاروں شہدا اور ہزاروں لاپتہ افراد وطن کی آزادی کا خواب آنکھوں میں لیئے دشمن کی ٹارچر سیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ مگر گذشتہ کچھ عرصے سے بلوچ قومی سیاست سے منسلک سیاسی لیڈر شپ اور کیڈرز کی کمزوریاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اب ہم صرف دوسروں پر تنقید، خود ستائی اور اپنے مخصوص لابی کی خوشنودی کی خاطر عمل کرتے ہیں۔
سیاسی لیڈران و کیڈرز جن کا کام ہی عوامی تعلق قائم کرنا ہوتا ہے، اگر وہ خود کو عوام سے دور رکھیں اور اس سوچ میں مبتلا ہوں کہ میرا یہ رویہ مجھے افضل بناتا ہے اور اس رویے کی بنیاد پر لوگ مجھ سے زیادہ عقیدت محبت اور میری خاطر بے چین ہونگے تو یہ بات خواب خرگوش کے سوا کچھ بھی نہ ہو۔ ہم اس قدر اپنی انا، خودغرضی اور لالچ میں مبتلا ہیں کہ ہم یہ بھی محسوس نہیں کرپارہے ہیں کہ ہمارے لوگوں کی تمام امیدیں ہم سے وابسطہ ہیں۔ وہ بہنیں جن کے بھائی کبھی ہم سب کی آواز تھیں، آج جب وہ آواز دبائی جارہی ہیں، تو باقی تمام زمہ داریاں کجا ہم ان سے اظہار یکجہتی کیلئے چند لفظ لکھنے سے بھی غافل ہیں، انھیں یہ دلاسہ بھی نہیں دے رہے کہ دیکھیئے ہم آپ کے ہمراہ ہیں، اگر ہم ظالم کے چنگل سے شبیر کو بازیاب نہیں کراسکتے مگر یقیناً اس جبر کے خلاف آپ کی آواز میں آواز ملا سکتے ہیں۔
عوامی بے رخی اور دل برداشتگی کا مرکزی سبب ہی سیاسی حوالے سے کمزور رشتے ہوتے ہیں، اگر آپ سماج میں مضبوط اور پائیدار رشتے بنانے میں کامیاب ہونگے، تو آپ کی آواز عوامی آواز ہوگی آپکی سوچ عوامی سوچ ہوگی آپکا عمل، عوامی عمل ہوگا۔
اگر ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو آج بلوچ سیاسی کارکنان اور کیڈرز کی کثیر تعداد یورپی و امریکی ممالک میں موجود ہے، جو قومی درد سے آشنا بھی ہیں مگر وہ کیوں اس قدر عدم دلچسپی کا شکار ہیں؟ کیوں وہ عمل کی گہرائی کو سمجھنے سے غافل ہیں؟ تو اس کی بہت ہی سیدھی سی وجہ ہمارے سیاسی رویے اور تعلقات ہیں۔
ٹھیک اسی طرح بلوچ شاعر، ادیب و دانشور طبقہ اپنے ذاتی و گھریلو مفادات کے پیچھے اس قدر دوڑ رہا ہے کہ وہ سماج کو سنوارنے کے بجائے اپنی محبوب کی گیسو سنوارنے میں مگن ہے۔ ادیب و دانشور اجتماعی زیادتی کو چھوڑ ایسے معاملات میں مگن ہے جن کا شعوری حوالے سے ابھی تک ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق ہی نہیں، کیوںکہ امریکی اور یورپی معاشرے کو بلوچ غلام سماج میں رائج کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ جہاں آج بھی لوگ حق بات کہنے کی پاداش میں لاپتہ کیئے جاتے ہیں، مار دیئے جاتے ہیں، وہاں ایک آزاد سماج جیسے روایات کی بات کرنا اپنے علم اور قومی اجتماعی سوچ سے بھونڈے مزاق کے سوا کچھ بھی نہیں۔
سیما اور زرینہ کے ہمراہ نومولود میراث بھی اس سارے واقعات کا چشم دید گواہ ہے اور وہ ایک ایک لمحہ جو گذر رہا ہے، میراث کی زندگی کا تاریخی حصہ بن رہا ہے، کل جب شبیر بازیاب ہوجائے گا، جب میراث بڑا ہوگا اور شبیر سے حال احوال کریگا تو شبیر سے ضرور پوچھے گا، جن لوگوں کی آزادی، حقوق، خوشحالی، برابری، بہتر زندگی، بنیادی انسانی حقوق کی خاطر جدوجہد کررہے تھے، وہ لوگ اس وقت کہاں تھے جب میری ماں اور آپکی اہلیہ دربدر آپکی متلاشی تھی؟ وہ تمام آپکے دوست رفقاء اس وقت کیوں چپ سادھے ہوئے تھے، جب ایک غیر بلوچ پولیس افسر میری ماں کے درد کو اور بڑھاوا دے رہی تھی اور انکے بہتے اشکوں پر ہنس رہی تھی؟ وہ تمام لوگ جو ہمیشہ سوشل میڈیا پر اپنی مشہوری کیلئے دنیا جہان کی ایکٹیوٹیز کرتے ہیں، انہیں ہمارے درد سے کیوں سروکار نہ تھا۔ یقیناً ان سوالات کا جواب شبیر کے پاس ہوگا، تبھی وہ ہمارے اجتماعی سیاسی و سماجی سوچ کی حقیقت جانتے ہوئے بھی ہمارے حقوق کی خاطر جدوجہد کرتا رہا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔