سیلاب بنیں گے یہ آنسو
تحریر۔ زبیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شال کی سرمئی شام اور دھواں آلود فضا میں ہر شے مدہم مدہم نظر آرہی تھی۔ سورج کو اپنی کرنیں سمیٹنے اور تاریکی کو پنکھ پھیلانے کی دیر تھی، سورج میں حرارت کچھ باقی نہ ہونے کی وجہ سے سردی ہر ایک کے وجود میں دھنسی جارہی تھی، پھیکی تاریکی دھیرے دھیرے پھیلنے لگتی ہے، ہزارغم و الم کی داستان امن و انصاف کے زنگ آلود راج دربار کو دستک دینے آئے زرینہ بی بی اور سیما بی بی کی آنکھوں سےلہو کے سیلاب تیرنے لگتی ہیں۔
یہ آنسو آنسو نہیں تھے۔ یہ آنسو ان تمام بھٹکتی، آتماؤں، بد روحوں، پراسرار کھنڈراتوں، بوسیدہ اور پرانی تاریک ظلمتوں کی شب جو کئی سالوں سے دھرتی پر بھٹک رہی ہیں، جس سے ہر گھر آسیب زدہ ہے اور ہر آنگنائی پر ماتم ، سب کو بہا کر لے جائے گی۔
ان دو موٹے قطروں کے پھچھے کئی عشروں، سالوں کے وہ چھوٹے بڑے واقعات ہیں، جو ہر روز وقوع پذیر ہوتے ہیں، جن کے پس منظر میں جبر کا شاہی فرمان،غم وغصہ، محرومیاں،لاچاری، بے وسیاں اور دکھوں کا سلگتی لاوا ہوتی ہیں۔
یہ لاوا پھٹے گا ضرور پھٹے گا، تو ایک نہ رکنے والا طغیانی لائے گا۔ یہ طغیانی ایک تحریک کی شکل دھارے گی جو منظم ہو کر سماج کے بنیادی ساخت کو، پرتوں کو، تبدیل کرکے ایک بہت بڑے انقلاب کی شکل پر منتج ہوتی ہے اور یہ انقلاب مظلوم قوموں کی منزل ہوگی جہاں قومی و طبقاتی جبر، ناانصافی، کمزور، مظبوط، آقا،غلام جہالت غربت، تعصبات کا تصور نہیں ہوگا۔
ایسے انقلابی جست کو جدلیاتی مادیت کے رو سے معیاری تبدیلی کہتے ہیں۔ جو ایسے واقعات کے اندر مقدار کو معیار میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ماضی میں ایسے کئی چھوٹے چھوٹے واقعات نے دنیا کی تاریخ اور ملکوں کے نقشوں کو بدل دی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کا واقعہ بظاہر شاہی خاندان کے ایک فرد کے قتل پر شروع ہوتی ہے۔ young Bosina نامی ایک سیاسی تنظیم کے کارکن نے شاہی خاندان کے فرد کو بوسینا میں آسٹرو ہنگرین رول ختم کرنے کے لیئے قتل کیا بعد میں چل کر یہی واقعہ پہلی جنگ عظیم کے عظیم تباہی کا سبب بنتی ہے۔ جنگ کے پس منظر، اس کے پھچھے کارفرما عوامل، واقعات، محرکات 1914 سے پہلے کا سیاسی بحران علاقائی سیاست ہمارا موضوع سخن نہیں۔
علاوہ ازیں عرب خطے میں ہونے والی بہت بڑی تبدیلی کا سبب ایک تیونسی نوجوان بو عزیزی کا مبینہ خود کشی ہے، جس نے انقلاب بہار پر چابک کا کام کیا، یوں دیکھتے ہی دیکھتے پورا مشرق وسطیٰ انقلاب کے لپیٹ میں آجاتی ہے۔
تیونس میں مچی کہرام تیونس، مصر، لیبیا اور دیگر عربوں ملکوں کے حکومتیں دھڑام سے گرا دیتی ہے۔ لیکن قیادت اور نظریات کے بحران سے بغاوت تھم جاتی ہے۔
سیما بی بی اور زرینہ بی بی کے آنسووں نے چنگاری لگا دی ہے، اس لگی چنگاری کے شعلوں سے ہر طرف دھواں دھواں سا ہے۔ اس آگ کی تپش ہر زی شعور فرد کے شریر میں پیوست ہوگئی ہے اور اس میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے یہ آگ انقلاب کی آگ ہے اس کے لیے،
چشم نم، جان شوریدہ کافی نہیں ۔۔۔
اب سیما بی بی اور زرینہ بی بی کو پا بجولاں چلنا ہو گا۔
محض ہمدردیاں سمیٹنے پر اکتفا کرنا کافی نہیں، معروضات کے تناظر میں ہمدردیاں بٹورنا درست اقدام ثابت نہیں ہوسکے گا۔ بلکہ انقلابی و قومی نظریات اور افکار کو بنیاد بنا کر منتشر ٹوٹ پھوٹ اور آگ کے شعلوں میں گھرے ہوئے دھرتی ماتا کی سیاسی بساط کو ایک صفحے میں سعی کرنے جیسے انقلابی جزبوں، خود اعتمادی، دانشمندی سے اپنے تاریخی فریضہ جسے تاریخ نے ایک اہم موڈ پر سونپی ہے، کو اپنے ناتواں مگر باہمت کندھوں پر رکھ کر پر امن جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق کی جہدوجہد کو دوام بخشنے ان ظلم وستم کی کارستانیوں سے نجات کے لیے جدوجہد کا پر خطر راستے کا انتخاب کرنا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔