سیاسی نفسانفسی اور آنسوؤں کی سیلِ رواں
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
میری پیاری بہن! آپ کی پرمہر، پر اثر اور پر غیرت نورافروز آنکھوں سے چمکتی ہوئی آنسوؤں کو میں نے بھی دیکھا، ہر بلوچ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا نے بھی دیکھ لیا، سب نے دیکھا، سب نے سمجھا آپ کی دکھ، تکلیف، درد اور ارمان کیا ہیں؟ مجھے بہت تکلیف ہوا اور احساس ہوا کہ صرف شبیر گمشدہ نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں اس وقت شبیر گم اور شہید ہوچکے ہیں۔ آج صرف آپ نہیں ہزاروں کی تعداد میں بہن اسی طرح سسک سسک کر آنسو بہارہے ہیں لیکن وہ میڈیا میں یا ہمارے نظروں میں ظاہر نہیں ہورہے ہیں بلکہ ہمارے جذبات اور احساسات سے دور ہیں، مگر آپ نے احساس دلانے اور ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیئے آنسووں کے اظہار سے احساس دلانے کی ایک سعی کی مگر کس کو؟
اگر بحثیت ایک بلوچ بہن کہ ہمیں بحثیت شبیر کا وارث اور ہمسفر سمجھ کر احساس دلانے اور ہمارے ضمیر کو جھنجوڑنے اور جگانے کی کوشش کی تو ہمیں احساس ہوگیا، ہمارا ضمیر زندہ ہوگیا، جی ہاں کب سے زندہ ہے بھی۔
اسی احساس و ضمیر کو جھنجوڑنے، جگانے، جذبہ اور غیرت کی آگ بھڑکنے کی پاداش میں قلم اٹھاکر اپنا فرض اور قرض نبھانے کی خاطر کچھ لکھ کر کاغذ کے منہ کو چند خوبصورت جملات سے سیاہ کررہا ہوں۔
باقی آپ کی آنسووں سے چمکتی ہوئے تصویر کو بطور پروفائل اپلوڈ کرکے اپنا فرض نبھارہے ہیں، چند لائک، شئیر، کمنٹ میں آپ کے بارے میں اظہار ہمدردی، اظہار تکلیف اور اظہار یکجہتی کے کچھ خوبصوت خیال پیش کررہے ہیں۔ بہن یہ بھی قومی احساس کی آخری انتہاء ہے یہی تو قوم پرستی اور جہدوجہد میں برسرپیکار اپنے کردار کا تعین ہے۔
یہ تو آپ ہی کی آنسووں کا احساس ہے، رات دیر تک ہم سوشل میڈیا کے استعمال میں مصروف عمل پوری رات تکلیف اور بے خوابی کے عالم میں جاگے ہوئے ہیں، اسی وجہ سے صبح مجبوراً اٹھنے میں دیر ہوتا ہے۔ آپ کی گرتی ہوئی آنسووں کا بالکل احساس ہے، آپ کی درد بھری تصویر کو پوسٹ، لائک، کمنٹ اور شئیر کرنے میں ہاتھوں میں آخر کار تھکاوٹ درد اور تکلیف محسوس ہوتا ہے، مگر کیا کریں، کرنا بھی چاہیئے کیونکہ اسی طرح کرنے سے ہی بلوچ قوم میں شعور و آگاہی، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنطیموں اور مہذب دنیا کے کان کھڑے ہونگے، یہی سوشل میڈیا ہی تھا جس کے بدولت چین، ویتنام، کیوبا، افریقہ وغیرہ میں آزادی اور انقلاب برپا ہوا۔
ہمیں آپ کی آنسووں کا بے حد احساس ہے، آپ ہی کے آنسووں میں ہمیں پاکستانی پارلیمنٹ تک رسائی کے لیے ووٹ ملتا ہے اور 6 نکات کو پیش کرنے کے لیے موقع اور کروڑپتی بننے کے لیے ذریعہ میسر ہوتا ہے، یہی آنسووں کے بدولت جنگی منافع خوری کا اچھا اور آسان نسخہ ملتا ہے، انہی آنسووں کی بدولت انقلابی بیورکریٹک رجحان اور حیثیت ہماری قسمت میں آتا ہے، یہی آنسووں کے زیر سائے میں ہم لیڈر، کمانڈر، دانشور، شاعر، ادیب اور قومی ہیرو بن جاتے ہیں۔ ہمیں بالکل احساس آخری حد تک ہے۔ اسی احساس کی لہروں میں ہم مگن اور مصروف ضرور ہیں، زیادہ نہیں بہت کم اور محدود سطح تک جہدوجہد کی بدولت اپنے کردار، تکلیف اور مشکلات کے عوض اور احسان کہ تحریک ہماری ضروریات کو وقت پر پورا کرے، آسائش، سہولت، آرام، سکون، خواہش اور فرمائش کیونکہ یہ ہمارا حق ہے۔
تحریک کی ذمہ داری ہے، ہمیں سبنھالنا چاہیئے، کیوں نہیں سنبھالتا؟ جب ہم کو دن رات آپ کی آنسووں کا احساس اور فکروغم ہے، جب ہم اسی احساس کے ساتھ تحریک سے گلہ، شکوہ شکایت اور اختلاف کرتے ہیں، تو اس میں بری بات کیا ہے؟ دنیا کے تمام تحریکوں میں ایسا ہوا ہے، بیوروکریٹک سوچ، تحریکات کا حصہ ہیں گوکہ بیوروٹیک سوچ سے کسی نہ کسی حدتک تحریک اور انقلابی پارٹیوں کا خانہ خراب ہوچکے ہیں لیکن ضروری نہیں یہاں بھی ایسا ہی ہو یہاں اور وہاں زمین آسمان کا فرق ہے، زمینی حقائق بھی مختلف ہیں۔
میری بہن! آپ کی آنسووں کی قسم ہم یہ بھی جانتے ہیں یا نہیں جانتے، تحریک میں بیورکریٹک سوچ، رجحان اور ماحول یعنی جنگی منافع خوری، موقع پرستی، آسائش پرستی، روایتی سوچ، جھوٹ، فریب، فن کاری، مکاری، چاپلوسی، چمچہ گیری، قبائلیت، علاقائی پرستی، حسد و بغض اور بدنیتی تحریک کے لیے دشمن کے جدید ہتھیاروں، جیٹ طیاروں، ہیلی کاپٹروں، بمباری، قتل، عام مخبری، گمشدگی اور نسل کشی سے دگنا خطرناک اور ناسور ہیں لیکن ہم اس کے نقصان اور خطرے سے اس لیئے لاعلم اور واقف نہیں ہیں کہ دشمن ظاہری برائے راست ایک خطرناک زہر ہے، قوم اور تحریک کی خاطر لیکن بیوروکریٹک سوچ، رجحان اور ماحول سلوپوائزن ہے جو کچھ مدت کے بعد انتہائی خطرناک شکل میں قوم اور تحریک پر اثرانداز ہوتا ہے۔
اسی طرح آج ہزاروں کی تعداد میں بلوچ ماں، بہن اور معصوم بچوں کی تھرتھراہٹ، نفرت انگیز وگرم سبق آموز اور معنی خیز گرتی آنسووں کا اگر صحیح معنوں میں اندازہ لگایا جائے تو یہ آنسو، صرف ٹپکے ہوئے پانی کے بوند نہیں بلکہ دشمن کے لیئے قہر و نفرت اور انتقام کے عبرت کے نشان ہونگے۔
غلط رخ اور غلط سمت سفر کرنے اور بیوروکریٹک سوچ رکھنے والوں کے گربیانوں کو مستقبل میں پکڑنے والوں کے لیئے لعنت کے آہنی ہاتھ ہونگے۔ مستقبل میں بلوچ قوم اور بلوچ تاریخ کے صفحات یہی آنسو اور لہو کی سیاہی سے تحریر ہونگے۔
انہی آنسووں کا احساس و سوچ کے ساتھ تحریک کی کامیابی اور کامرانی کی تمناء کو لیکر انتہائی بے رحمانہ طرز میں ہر سطح، ہر مقام لمحہ بہ لمحہ قومی تحریک میں بیوروکرٹیک سوچ کی بیخ کنی اور حوصلہ شکنی ہر جہدکار کا قومی فرض اور قومی قرض ہے، اگر کسی میں ذرا بھی ان آنسووں کا احساس ہے، خاص کر ایمانداری، دیدہ دلیری اور بے رحم طرز بیخ کنی اور حوصلہ شکنی کی حصول کے خاطر بلاخوف و لالچ اور غیر مصلحت پسندانہ رویہ درکار ہوتا ہے اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جب گرم لہو اور آنسووں کی حقیقی بنیادوں پر احساس ہوگا، تو خوف، لالچ اور مصلحت پسندئ خود بخود ختم، کمزور اور مفلوج ہوگا۔ جب تک اجتماعی احساس مفلوج اور تذذب کا شکار ہوگا اس وقت تک لالچ، خوف، خاطر، رواداری اور مصلحت پسندی صحت مند ہوگا۔ جو ایک حقیقی انقلابی رویہ نہیں بلکہ غیرانقلابی رویہ ہے، جس سے ہر ممکن حد تک چھٹکارہ حاصل کرنا شعور و علم میں پوشیدہ ہوتا ہے، جہالت خود ہمیشہ خوف، لالچ اور مصلحت پسندی کی ماں ہوتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔