سیاسی آمریت ۔ کریاب بلوچ

549

سیاسی آمریت

کریاب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

واجہ گلزار امام جیسے جُہدکار اور سیاسی کارکن کو صرف اس بات پر تنظیم سے نکال باہر کرنا کہ اس نے “براس” میں شامل تنظیموں کے اس اقدام کو سراہا، یہ رویہ جابرانہ سیاسی سوچ ہے۔

میں نے چند دن پہلے دوستوں سے کہا تھا کہ گلزار امام اور انکے تمام ساتھیوں کو بی آر اے جیسے تنظیم میں مستقبل نہیں، اس پر سوشل میڈیا پر میرے کمنٹس موجود ہیں۔ ایسی تنظیم جہاں آزادی رائے پر پابندی ہو، وہاں گلزار جیسے مخلص سیاسی کارکنوں کی موجودگی خود انکی شخصیت پر سوالیہ نشان ہے۔

اگر سچ پوچھو تو مجھے کوئی افسوس نہیں بلکہ خوشی ہے کہ گلزار امام اور انکے دوست کم از کم اپنی قیادت کے اس جابرانہ و خود غرضانہ سوچ سے تو آزاد ہوئے۔ لیکن میرے گمان میں ایسے کئی سوالات ہیں کہ گلزار امام جیسے جُہدکار نے اتنے برس کس طرح صبر وبرداشت سے گذارے ہو نگے اور اپنے ساتھیوں کو یکجاء اور تنطیم کو منظم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ انکی سیاسی ذہانت ہی تھی کہ انہوں نے سارے دوستوں کو اپنے سوچ سے باندھے رکھا، وگرنہ سرداری، نوابی، جابرانہ سوچ تو ہر بلوچ سیاسی جُہدکار، سیاسی کارکن کی سمجھ سے بالاتر نہیں۔

کہنے کو تو بہت آسان ہے لیکن ایسے نوابی سوچ کے چھتری تلے جدوجہد کرنا مشکل اور بڑے صبر اور دیانتداری سے ساتھیوں کو یک مشت کرنا کسی غیر انقلابی رویے والے کردار کا کام نہیں۔ یہ گلزار امام جیسے ایک کل وقت انقلابی سیاسی کارکن اور انکے ساتھیوں کا کمال ہے کہ خود کو ان جابر سیاسی سوچوں کی موجودگی کے بجائے اپنے جُہدکاروں کو یک مُشت رکھے ہوئے تھا۔

ہم بی آر اے اور بی آر پی کی قیادت کی سیاسی سوچ سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن اب کچھ سالوں میں ان تنظیموں نے بلوچ عوام کے سامنے خود اپنا ڈھول بجا بجا کر پھاڑ دیا۔ اور یہ مستقبل میں بھی کچھ اور کارنامے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کو وقت و حالات خود بلوچ عوام کے سامنے لاکر کھلی کتاب کی طرح رکھ دےگا۔

میری “براس” میں شامل تمام تنظیموں کے سربراہان سے گذارش ہے کہ گلزار اور انکے ساتھیوں کو جلد دعوت دیں تاکہ یہ بلوچ پُسگ اپنی مادرِوطن کی آزادی کے لیے اُسی بہادری کا مظاہرہ کرتے رہیں جو پچھلے کئی سالوں سے کرتے آئے ہیں۔

اب بلوچ جُہدآزادی کے تنظیموں کو انکے بہادر جوانوں اور سیاسی کارکنوں کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ کون کس طرح بلوچ آشوب کو آگے لے جانا چاہتا ہے، کون کس طرح کا بلوچستان چاہتا ہے؟ اور کون جُہد کو اپنی جاگیر سمجھنے کے فریب میں مبتلا ہے؟

ماضی میں ہر سیاسی سوچ کو برداشت کرکے ان کو یکجاء کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہم نے دیکھے جو بڑی پارٹیوں کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی چھوٹی سوچ کے انسان نکلے، یہ وہ سوچ رکھنے والے لوگ ہیں جو اتحاد سے ڈرتے تھے اور آج سب گواہ ہیں کہ یہ اتحاد کے خلاف کیسی سوچ رکھتے ہیں۔

مجھے ذاتی طور پر یہ گمان ہوتا رہا ہے کہ یہ لوگ جُہدے آزادی سے دستبردار ہوکر ہمیں ایسے نقصانات دینگے جو ہماری جدوجہد کو کئی سالوں تک پیچھے دھکیل دےگا۔ لیکن میرے گمان و سوچ سے بالاتر ہے یہ جُہد آزادی کا سمندر جو خود اپنے اندر سے گندگی کو نکال باہر کرتی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔