سعودی ولی عہد کے خلاف جنگی جرائم کی کارروائی کا مطالبہ

122

دنیا بھر کے سربراہان کی عالمی کانفرنس (جی 20) کے اجلاس کے دوران ارجنٹائن کی انتظامیہ کے سامنے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف جنگی جرائم کی کارروائی کا مطالبہ زیر غور آئے گا۔

امریکی اخبار یو ایس اے ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق نیویارک سے تعلق رکھنے والی ہیومن رائٹس واچ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف ارجنٹائن کے فیڈرل پراسیکیوٹر کے پاس ایک شکایت درج کرائی ہے۔

اس شکایت میں الزام لگایا گیا کہ عرب دنیا کے سب سے غریب ملک یمن میں سعودی اتحادی فوجی مہم سے سعودی ولی عہد نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی اور بطور سعودی وزیر دفاع ان کے کردار پر انہیں مجرمانہ سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ادھر برطانوی اخبار گارجین کی رپورٹ کے مطابق ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ارجنٹائن کے فیڈرل پراسیکیوٹر کو شکایت کی، جس میں کہا گیا کہ ارجنٹائن اپنے قوانین میں موجود عالمی دائرہ کار کو اختیار کرتے ہوئے یمن میں سعودی اتحادی جنگ اور سعوی شہریوں خاص طور پر جمال خاشقجی پر تشدد کے واقعات کے تناظر میں محمد بن سلمان کے خلاف کارروائی کرے۔

واضح رہے کہ ارجنٹائن کا آئین ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو دنیا بھر میں ہونے والی جنگی جرائم اور تشدد پر قانونی کارروائی کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں کہی بھی کوئی ایسا جرم ہو تو ارجنٹائن کی عدالت اس کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے پیش کی گئی یہ شکایت فیڈرل جج ایریل لیجو نے موصول کی تھی اور اسے فیڈرل پراسیکیوٹر رامیرو گونزالیز کو بھیج دیا تھا۔

اب پراسیکیوٹر یہ فیصلہ کرے گی آیا ارجنٹائن کے آئین میں موجود اس عالمی اختیار کا اطلاق ولی عہد محمد بن سلمان کے کیس پر ہوتا ہے۔

اس حوالے سے کلیرن نیوز پیپرز نےعدالتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس بات کا امکان ’بہت مشکل‘ ہے کہ اس کیس میں ایسا ہو۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمال خاشقجی کا قتل ’انسانی حقوق کے خلاف جرم‘ میں نہیں آتا۔

تاہم ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جمع کرائی گئی شکایت کی بنیاد تشدد کے وسیع تناظر اور یمن میں جاری فوجی آپریشن پر ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے کہا گیا کہ مارچ 2015 سے سعودی حمایت یافتہ اتحاد ’یمن میں شہریوں اور شہریوں کی املاک، گھر، اسکول، ہسپتال، مارکیٹس اور مساجد پر اندھا دھند فضائی حملے کر رہے ہیں‘۔

شکایت میں کہا گیا کہ ان میں سے متعدد حملے ممکنہ جنگی جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہیں جبکہ اس اتحاد نے یمن پر سمندری اور فضائی پابندیاں بھی نافذ کی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے خوراک، ایندھن اور ادویات بہت حد تک محدود ہوگئی اور لاکھوں شہریوں کو بھوک و افلاس اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا۔

دوسری جانب ارجنٹائن کی جانب سے سعودی ولی عہد کے خلاف کارروائی کی درخواست پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

ذرائع نے گارجین کو بتایا کہ ’ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محمد بن سلمان کی حاضری کی تصدیق کی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ ہمیں اب تک کوئی معلومات نہیں ملیں‘۔

تاہم وزیرخارجہ کے ترجمان جورجی فوری کا کہنا تھا کہ اس بات کا امکان مشکل ہی کہ ہیومن رائٹس واچ کی درخواست پر کوئی کارروائی ہوسکے۔

یمن جنگ

خیال رہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مشترکہ اتحاد نے سال 2015 میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف یمن میں جنگ کا آغاز کیا تھا ۔

اس جنگ کے باعث 2 کروڑ 80 لاکھ افراد پر مشتمل یمنی آبادی بدترین انسانی بحران کا شکار ہے اور جہاں 84 لاکھ سے زائد افراد بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ساتھ ہی حالیہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اپریل 2015 سے اکتوبر 2018 کے درمیانی عرصے میں غذائی خوراک کی عدم دستیابی کے سبب تقریباً 84 ہزار 701 بچے بھوک کی وجہ سے دم توڑ گئے۔

جمال خاشقجی کا قتل

سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔

تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خبر سامنے آئی کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا۔

علاوہ ازیں امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے حوالے سے 17 نومبر کو امریکی ذرائع ابلاغ میں رپورٹس آئی تھیں کہ ایجنسی کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔