ساروان ایک علاقائی مسئلہ یا سماجی بیماری-سلمان حمل

626

ساروان ایک علاقائی مسئلہ یا سماجی بیماری

تحریر: سلمان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دن پسنی کے ایک نوجوان کی خودکشی اور اس کے بعد کے حالات میں مجبوراً کچھ لکھنا پڑا، کوئی کہتا ہے زیادتی ہوا ہے، کوئی کہتا ہے نہیں ہوا ہے، کوئی کہتا ہے کہ گھر کے مھمان جن کا تعلق پنجگور سے تھا انہوں نے اس نوجوان کے ساتھ زیادتی کی ہےـ مگر عموماً ہمارے اجتماعات میں اس حوالے سے مکران میں پنجگور جب کہ سراوان میں مستونگ اور افغانستان میں قندھار کے لوگوں کا مثال دیا جاتا ہےـ ایک زاویہ جسے ہم بالکل زیر بحث نہیں لاتے اور نہ ہی غور و فکر کرتے ہیں کہ آیا ہمارے آس پاس ہمارے آبائی شھر، گاؤں اور میتگ میں ایسے کم واقعات ہوئے ہیں؟ اگر سوچیں اور حقیقت سے روگردانی کے بجائے راست گوئی کریں تو جواب صفر پلس صرف برابر صفر آئے گاـ کیونکہ ہر علاقے میں ایسے آدم نما جانور موجود ہوتے ہیں، جو یہ کام بڑے فخر سے کرتے ہیں

ـایک ایسا وقت تھا جب کیچ میں کوئی زردار بغیر کسی حسین نوجوان لڑکے کے گھومنا اپنی شان شوکت کے خلاف سمجھتا تھا ـ یہ باعث پریشانی نہیں کہ یہ بیماری صرف بلوچ سماج میں پائی جاتی ہے ـ یہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی پائی جاتی ہے، جسے دنیا لوطیت کی نام سے جانتا ہے ـ یہ اصطلاح دراصل حضرت لوط کی قوم سے ماخوذ ہے کہ جب لوط کی قوم نے حسین نوجوان لڑکوں پہ اپنے ہوس کی آگ بجھائی، تو اس وقت فرشتے حسین نوجوانوں کی شکل میں لوط کے گھر آئے اور اقوام لوط کو اس بات کی خبر ملی تو سب لوط کے گھر کے سامنے جمع ہوئے، کہا جاتا ہے کہ اسی وقت لوط کی قوم کو اجتماعی سزا کے طور پر تباہ کیا گیاـ

اب واپس اپنے موضوع کی جانب آتے ہیں، اور یہ سوال اپنے آپ سے کرتے ہیں کہ آیا لونڈے بازی ایک مخصوص علاقے کا وطیرہ ہے یا مکمل سماجی بیماری ہے؟ تو کم از کم میں اپنا جواب اسی تحریر میں دوں گا کہ جی نہیں یہ کسی مخصوص علاقے کا نہیں بلکہ ہمارے سماج کا وہ مرض ہے، جس کی تشخیص اور علاج لازمی ہےـ یہ واقعہ تو پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ کہ آخری ـ تو اس مرض کا علاج سماجی تبدیلی میں پنہاں ہے، جسے ہم اپنے علم و زانت اور شعور کے بدولت لاسکتے ہیں ـ اور یہ عمل خاص کر نوجوان جو تعلیمی اداروں سے فارغ ہوئے ہیں یا وہ تعلیمی مراحل طے کررہے ہیں ـ وہ بہتر انداز میں کرسکتے ہیں ـ

ترقی کی باتیں اس وقت دم توڑتی ہیں، جب سماج اندھا بہرا اور گونگا ہوگاـ سماج کے نوجوان اپنے ارد گرد ہونے والے مسائل سے لاعلم ہوں ـ ویسے تو ڈگری بقول رئیسانی ڈگری ہوتا ہے چاھے اصلی ہو یا نقلی مگر میں بذات خود یہ سمجھتا ہو اور اسی بات کا متقاضی ہوں، اصل ڈگری تو انسان کی قابلیت ہوتی ہے باقی جو ڈگری ہونگے وہ سب کے سب نقلی ـ

مجموعاً میرا مقصد یہ ہے کہ نوجوان اپنے سماج کے تبدیلی کیلئے حرکت میں آئیں، اپنے سماج کو ایک بھتر سماج بنائیں ـ بجائے کیچی، پنجگور، مندی، تمپی، گوادری، کی راگ الاپنے سے ـ تاکہ ساروان جیسے ہزاروں نوجوان اس وحشت سے بچ سکیں ـ متشکر

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔