ریاستی بیانیئے کا پیرو نام نہاد میڈیا – عبدالواجد بلوچ

444

ریاستی بیانیئے کا پیرو نام نہاد میڈیا

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

مہذب دنیا میڈیا کی آزادی پر فخر کرتا ہے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں 70 سال گذرنے کے باوجود بظاہر یہ طے نہیں ہوسکا ہے کہ ریاست اور میڈیا کے درمیان تعلقات کیسے ہونے چاہیئں۔ کیا مادر پدر آزاد میڈیا دونوں کے فائدے میں ہے یا پھر ریاست ہمیشہ قومی مفاد کے تناظر میں اس آزادی کی حد کا تعین کیا کرے گی؟ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کا معیار صرف وزیر اعظم اور دوسرے وزراء کی نقالی کرکے مزاح کا رواج اپنانے تک محدود ہے؟ پاکستانی ریاست کا رویہ تو “بلوچ” کو لیکر واضح ہے لیکن نام نہاد میڈیا و صحافی حضرات(جو کہتے نہیں تھکتے کہ ریاستی زور ہم پر حاوی ہے) لیکن دراصل بلوچ مسئلے پر خواہ وہ لاپتہ افراد کی گمشدگی ہو یا ان کی ماورائے عدالت قتل یا ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنا ہو، تو ان مندرجہ بالا مسائل پر پاکستانی صحافی حضرات پر ہمیشہ جانب داری کا بھوت سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے، پاکستانی میڈیا یا اشرافیہ کے لوگوں نے بلوچ قوم کو ہمیشہ ریاستی بیانیئے کے تناظر میں دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں.

میڈیا کا معیار اس قدر گر چکا ہے کہ وہ اپنے سرخیوں میں “ڈونکی کنگ” پر repeated پٹیاں یا نیوز بلٹن چلا سکتے ہیں لیکن گذشتہ کئی ہفتوں سے شال میں اس سردی کے موسم میں معصوم بچوں کے ساتھ بلوچ لاپتہ افراد کے لئے سرگرداں بلوچ خواتین کی آنسوؤں پر نوحہ کرنے کے لئے فرصت ہی نہیں……….. ہمیں گلہ نہیں اور نا ہی بلوچ ہونے کی حیثیت سے ہمیں کسی بھی ریاستی ادارے یا ان کے پیرول پر چلنے والی نام نہاد میڈیا یا باہر ملکوں میں چلنے والی پاکستانی صحافی حضرات کے ماتحت بین الاقوامی میڈیا گروپس کے شعبہ اردو سے گلہ کریں گے کیونکہ “بلوچ” کو لیکر ان کے ہاں محب وطن پاکستانی ہونے والی رویہ لازمی امر ٹہرتا ہے. لیکن ہاں اُن کی اس دوغلی کردار پر بلوچ ہونے کی حیثیت سے ہم سوالات اٹھاتے رہینگے کیونکہ میڈیا کی آزادی کے راگ الاپنے والی ان قوتوں کے مکروہ چہروں کو ہم نے دیکھا ہے اور انہیں بے نقاب کرنا بھی ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے.

“جبری گمشدگی ایک جرم ہے اور جرم رہے گی۔ آج تک ہم نے جن جبری گمشدگان پہ آواز اٹھایا ہے، ان میں سے کوئی ایک بھی کسی جگہ پہ کسی گوریلا لڑائی میں لڑتے ہوئے گرفتار یا دہشت گرد حملے کے دوران مارا نہیں گیا۔ اس لیے بی ایل اے کے تین فدائین کو لیکر جبری گمشدگان کے ایشو کو قالین کے نیچے دبانے کی کوشش سے مسئلہ حل نہیں ہوگا” اور نا ہی پشتون قوم کے لئے پرامن جدوجہد کرنے والی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ کے روح رواں منظور پشتون سمیت ان تمام رہنمایان کو انڈین و اسرائیلی ایجنٹ قرار دینے سے ریاستی مورال بلند ہوگا، پر ہاں یہ ہوگا ضرور کہ ریاستی بیانیہ Narrative کو فروغ دینے والی میڈیا یا نام نہاد صحافیوں کے عزائم و ان کے مکروہ چہرے ضرور عیاں ہونگے. انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے کوئٹہ شال میں اپنے پیاروں کی بازیابی پر نوحہ کناں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی چیخ و پکار سننے یا ان کی داد رسی کرنے کے بجائے نام نہاد میڈیا اور ریاستی حواری کل ہونے والے واقعے کو لیکر بی ایل اے کے فدائین کو لاپتہ افراد کہہ کر گذشتہ کئی دہائیوں سے ریاستی خفیہ اداروں کے ہاتھوں گمشدہ ہونے والے افراد اور مابعد سینکڑوں کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے پر ریاستی عزائم کو چھپانے کے لئے Missing Persons کے کیس کو متنازعہ کرنے کی ناکام سعی کررہے ہیں. پاکستانی ریاست ہو یا کہ ان کے زیر تسلط نام نہاد میڈیا دونوں کا کردار ہمیشہ بلوچ کے لئے ایک تھا، رویوں کو لیکر ان دو قوتوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ بلوچ قوم کو انتہاء درجے تک دیوار سے لگایا جائے۔

بلوچ سرزمین جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن بلوچ قوم کے فرزندان معمولی بیماریوں کے سبب موت کی آغوش میں چلے جارہے ہیں، جہاں سونا نکل رہا ہو وہاں کے باسی نان شبینے کا محتاج ہوں، جہاں گہرے پانیوں کا سمندر ہو وہاں کے مکین دو بوند پانی کے لئے ترس رہے ہوں اور جس زمین کے فرزند ہزاروں کی تعداد سے لاپتہ کئے گئے ہوں اور کئیوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئی ہوں ماؤں کی چیخیں عرش کو ہلادیتی ہوں بچوں کی سسکیاں طوفان برپا کردیتی ہوں تو وہاں پاکستان سمیت چائینا کے استعماریت کے خلاف فدائین ہی نکلیں گے نا کہ ان کو ہار پہنانے والے۔

اب جبکہ ریاست اور ان کے نام نہاد میڈیا اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے فدائین کو لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل کرکے بری الذمہ نہیں ہونگے بلکہ تاریخ کے پنوں پر درج دوسرے بنگلہ دیش کی طرح معرض وجود میں آنے والی “بلوچستان”بننے کی راہ ضرور ہموار کررہے ہونگے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔