راستہ سیدھا، ایک منزل اور چیک میٹ؟ – واھگ بلوچ

364

راستہ سیدھا، ایک منزل اور چیک میٹ؟

تحریر: واھگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جذبات، احساس اور انسان، جب ان کی بات کی جائے تو اپنوں کا درد، اپنوں کے جذبے پہلے اور زیادہ محسوس ہوتے ہیں، جذبات اور انکے احساس کو محسوس کرنے کے وہ کون سے مؤثر عناصر ہیں جو انسان کو انسان ہونے کا احساس دلاتے ہیں؟ جہاں اس احساس اور مطلب پرستی، خودغرضی، مفاد فرستی، منافقت ، بغض، لالچ کے بیچ ایک جنگ کا آغاز ہوتا ہے، یہ جنگ کیوں، کہاں اور کیسے ختم ہوتا ہے؟ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ شعوری و لاشعوری بنیاد پر، جس پر لوگ اپنی کیفیت کے مطابق شعوری، لا شعوری، دانائی، نادانی طور پر ذکر کرنے اورانکا ردِ عمل سامنے لاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کچھ لوگ اسے کارآمد بناتے ہیں اور کچھ لوگ وقت کے ساتھ چل کر وقت کا ضیاع کرتے ہیں، اگر وقت کے ساتھ چلتے ہیں تو وقت انہیں کہاں، کس طرف، اور کیسے لے جا رہا ہے؟ صحیح یا غلط ؟ کار آمد؟ یا غیر مؤثر؟ کیا ان سب کا علم ہے ہمیں؟ جذبات اور شعور کے درمیان تعلق اور ربط کیا ہے؟ 2000ء کے بعد جو دور چلا کیا وہ شعوری بنیاد پر تھا یا جذباتی؟ اگر وہ جذباتی عمل تھے تو شعوری عمل کون سے ہوتے ہیں؟ یا وہ شعوری اور جذباتی دونوں تھے؟ اور اُس دور کے بعد آج ہمارا شعور اور ہمارے جذبات کے درمیا ن کیسا تعلق ہے؟ تعلق ہے بھی یا نہیں؟

میں بے علمی، بےشعوری، انسانی شعور اور جذبات میں فرق نہیں کر پا رہا، ان کے بیچ موازنہ نہیں کر پا رہا، پر اتنا محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں میں سوالوں کی تخلیق کا سلسلہ بڑھا، اور سوالوں نے بے چینی سے اپنے تعلقات بھی بڑھا دیے، یہ مثبت ہے، پچھلے جتنے دور گزرے ہیں، ان سے تخلیق شدہ سوالات کیا ہیں؟ اور ان سوالوں نے کتنا بے چین کیا ہے؟ اور ان کی جستجو کتنی ہے؟ آج کے ان حالات کے تناظر میں علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سوالات کون سے ہیں؟ اور ان سے جڑے بے چینی اور جستجو کی شدت کیا ہے؟ اورکیا کر رہے ہیں؟ کتنا کر رہے ہیں؟ کتنا کرنا چاہیئے؟ پچھلے ادوار کے سوالات اور آج کے سوالات میں فرق کیا ہے؟ فرق ہے بھی یا نہیں؟ ان کا موازنہ ہم کیسے کر رہے ہیں؟ ہم آج کے حالات کو کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور کتنا کام کر رہے ہیں اس پر؟ دشمن ریاست کس نگاہ سے دیکھ رہا اور کیا کام کرنے کا سوچ رہا ہے؟ بین الاقوامی سطح پر اس دو رکو کیسا دیکھا جا رہا ہے؟

مجھ جیسے تھکے، سست، فرسٹریٹڈ لوگ سوالوں سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، انکا اپنے مطابق جواب پاکر خود کو دل میں تسلی دیتے ہیں، پر دونوں میں ہم ناکام ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ حالات شعوری طور پر ہو رہے ہیں؟ اگر ہاں تو راستہ کتنا سیدھا ہے اور منزل کیا ہے اس سے فراموشگی نا ممکن ہو جاتی ہے۔

یہ جنگ ہے، کس چیز کا جنگ ہے؟ احساسات اور جذبات کا؟ آنسو اور درد کا؟ کس کو احساس دلا رہے ہیں مخالف کو، اپنوں کو یا خود کو؟ ان بچوں کا احساس، ان ماؤں کا احساس، ان بہنوں کا احساس محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ گاندھی کے عدم تشدد کا فلسفہ ہو یا پھر بھگت سنگھ کے تشدد کا فلسفہ؟ کیا آج لوگ گاندھی اور بھگت کے فلسفوں میں فرق کر پا رہے ہیں؟ کیا گاندھی کی وجہ سے آزادی ملی یا بھگت سنگ کی وجہ سے؟ کیا اُس دور میں دونوں ایک دوسرے پر تنقید نہیں کر رہے تھے؟ ایک دوسرے کے چلنے کے طریقوں پر تنقید نہیں کر رہے تھے؟ تو آج ہم خود کو دیکھیں کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں؟ آج بلوچ قوم دیکھے سوچے ہر فرزند احساس کرے، کہ اس کو پہاڑوں پر یا جنگ پربھیجنے کیلئے، بلوچ بچے اور مائیں، بہنیں شال کی سردی میں بیٹھ کر آنسو بہا رہے ہیں، اپنا درد محسوس کرا رہے ہیں، اور ہم اتنے خود غرض، بے حس، بے ضمیر کہ ہمیں واقعی کچھ نہیں احساس ہو رہا۔

احساس ہونے کامطلب یہ بھی نہیں کہ آپ سڑکوں کو بند کرو، روڈ بلاک کرو، مردہ باد کے نعرے لگاؤ، احساس ہونا یہ کہ آپ جہاں جس جگہ جدھر بھی ہو، ان بچوں، ماؤں، بہنوں کا درد، انکے آنسو کا احساس کرلو، اس سے پہلے کہ آپ کے بچے، ماں، بہنیں یہ احساس کرلیں کہ میرا بھائی، میرا بیٹا، میرا شوہر، میرے ابو میری حفاظت نہیں کر سکتے، ہمیں جھوٹی تسلی دیتے ییں، وہ اتنا بے بس ہیں کہ اپنا کردار، اپنی بچی، ماں، بہن، بیوی کو واضح نہیں کرپا رہے، بس دنیا یہی ہے کہ گذارا ہو جائے اور کبوتر کی طرح آنکھ بند کر کے بیماری کی موت، یا حادثاتی موت کو ترجیح دیتے ہیں، اور دنیا میں گمنام ہو جاتے ہیں اور آخرت کی کوئی خبر نہیں، جب آپ کو ان آنسوؤں، اس درد کا احساس ہو گا تو دنیا کی کوئی بھی طاقت آپ کو اپنا کردار واضح کرنے اور عملاً کام کرنے سے نہیں روک سکتا۔ اور جب آپ کو احساس ہو گا، تو کسی شے کی ضرورت نہیں پڑتی اپنے ہم خیال، ہم سوچ، ہم سفر سے رابطہ کرنے کی۔ کسی نے کیا کہا تھا کہ سوچ کا سوچ کے ساتھ ربط لازمی ہے، اور یہ ربط اس وقت قائم ہو سکتا ہے جب ان آنسوؤں کا اس درد کا احساس ہو۔

پتہ نہیں آپ کیا سوچ رہے ہو اور میں کیا سوچ رہا ہوں، اور میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں اور آپ کیاسمجھ رہے ہو؟ بس اتنا کہوں گا کہ آنسو اور درد وہ واحد شے ہے جو یکجا کر سکتا ہے۔ اب بس ضرورت ہے تو ان آنسوؤں، اس درد کو محسوس کرنے کی، اس کیلئے کوئی کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں، ان کیلئے کسی علم کی ضرورت نہیں، ان کیلئے کسی سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں، نہ بحث سننے کی ضرورت ہے، نہ کوئی چینل، نہ صحافی، نہ سوشل میڈیا، نا کوئی تنظیم ، یہ سب بے کار ہیں جب آپ انکے آنسو، اور درد اصل معنوں میں خود نہ محسوس کر پاؤ۔

جو مسلح جدوجہد میں ہیں، یا پھر بلوچ قومی سیاست کر رہے ہیں، یا تیرا خدا کوئی اور ہے میرا خدا کوئی اور ہے کہ چکروں میں ہیں، تو وہ سن لیں، تاریخ موڑ لے رہی ہے، اور یہ کبھی خود کو دہرائے گی نہیں، جتنا احساس کر سکتے ہو کرلو، کیونکہ جب آپ کے اور آپ کے مخالف کے بیچ ایک جنگ ہوتی ہے تو دونوں کوشش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کو ہرانے کیلئے، مات دینے کیلئے، ایک دوسرے کے جتنے بھی آپشنز ہیں ان سب کو ختم کیا جائے، جو ان آپشنز کو ختم کرنے میں کامیاب، تو جیت اسی کی۔

آج ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ مخالف کے پاس کون سے آپشنز رہ گئے ہیں، اب کیا کرے گا، مخالف کے پاس جب آپشنز نہ بچے تو وہ چیک میٹ ہوجاتا ہے کیا ابھی وہ چیک میٹ پر ہے؟ یا نہیں؟ اور جب تک مجھے، آپ کو یہ آنسو، یہ درد اصل معنوں میں محسوس نہیں ہو تا، تب تک ہم مخالف کے آپشنز کو بلاک نہیں کر سکتے، اور وہ کیا کرے گا کیسے کرے گا؟ کیا مخالف کے پاس کوئی آپشن رہ گیا ہے؟ یا ہمارے پاس ان بچوں، ماؤں بہنوں کی آنسوؤں کو احساس کرنے کے علاوہ کوئی آخری آپشن ہے؟ یا یہ ایسا ہی چلتا رہے گا، بغض، مفاد پرستی، دوغلے پن کی کاروان میں، جس کے ساتھ منزل ملنا ایک بدصورت اور بُرا خواب ہے؟ آخر میں یہی کہ مجھے کچھ بھی نہیں پتہ، پھر اتنا ضرور محسوس کر رہا ہوں کہ جوہوگا جیسے ہو گا، رُخ صرف اور صرف بلوچ قوم کو یکجا کرنے کی طرف ہو گا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔