درویش صفت رئیس – برزکوہی

598

درویش صفت رئیس

برز کوہی

دی بلوچستان پوسٹ

کسی دوست نے مجھے بتایا مجید بریگیڈ کے سرباز شہید رئیس عرف وسیم جان کی بیگ میں ان کی ڈائری اور ڈائریوں میں مختلف تحریریں، یاداشت اور ان کے اپنے اشعار کے علاوہ کچھ کتابیں تھے، ان کتابوں میں ایک کتاب مولف ڈاکٹر حشمت جاہ کی “مسمریزم سیکھئے” تھی۔

تو مسمریزم کیا ہے؟ جو شہید سیکھتا تھا؟ دراصل مسمریزم ایک نفسیاتی و روحانی علم و نظریہ ہے اور یہ علم ایک جرمن طبیب کے نام سے موسوم ہے جس نے اس علم اور نظریے کی بنیاد رکھی۔

علم نفسیات کی تاریخ کے اوراق کو پلٹنے، پڑھنے اور سمجھنے سے معلوم ہوتا ہے، یہ علم اس وقت سے ہے جب سے دنیا کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ ایک لامحدود علم ہوتا ہے، روایات کے مطابق جو شروع دنیا ہی سے قدرت کی طرف سے بڑے بڑے بزرگوں کو عطاء ہوتا ہے، بہرحال ویسے یہ علم ہر ایک کو ہوتا ہے مگر اس کا جاننے والا ہر کوئی نہیں ہوتا ہے۔

اس عجیب و غریب اور حیرت انگیز اور پوشیدہ انسانی صلاحیت، طاقت اور قوت کا لاطینی نام میکنزم اردو میں روحانیت، فارسی میں مقناطیسیت عربی میں علم الاشرق، ہندی میں یوگ ودیا اور انگریزی میں مسمریزم کہتے ہیں۔

مسمریزم بننے کے لیے سب سے بنیادی شرط اور بنیادی اصول اور بنیادی فرض ہمیشہ وہ کام اور عمل کرنا جس میں حرص اور ہوس کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔

مسمریزم کی بنیاد ترک دنیا، پاکیزگی، بے غرضی یعنی جھوٹ منافقت حرص اور لالچ سے بالاتر ہمیشہ سچ بولنا، مہر و محبت اور خوص کے ساتھ سب سے ملنا۔

اکثر ہندوستانی یوگی تارک الدنیا، فقیروں سنیاسیوں، باکمال جادوگروں اور مسمرائزروں کے سینوں کے وہ راز جو احاطہ تحریر میں نہیں آسکتے تھے، جادوگروں کے وہ راز جن کو اکثر ہندوستانی سادھو اپنے سینے میں لیکر گوشہ قبر میں جالیتے۔

بڑے بڑے بزرگوں، صوفیاء کرام، درویش صفت اور عظیم ہستیوں کے بارے میں مطالعہ کیا جائے یا ان پر غور کیا جائے ان کے اکثریت کے پاس یہی علم مسمرئزم تھا، جس کے بدولت وہ طرح طرح کی کرشمے اور معجزات دکھا کر دنیا کو بھلا کیا کرتے تھے، چونکہ ہر ایک کے لیے اس علم کا جاننا مشکل ترین تھا لہٰذا درویش صفت صوفی کرام تارک الدنیا فقیر لوگ اسے حاصل کرتے اور دنیا کو فیض پہنچاتے۔

مختصراً آپ کہہ سکتے ہیں، مسمرئز بن کر لوگوں کو متاثر کرنا لوگوں کے دلوں پر اثرانداز ہونا، اپنے کرشمات دکھانا اور معجزہ پیش کرنا۔

درویش صفت و فقیر و مرشد رئیس جان اپنے اندر ایک کرشماتی انسان بن کر کیا آج پوری مظلوم اور محکوم انسانوں کے دلوں میں راج نہیں کرتا؟ واقعی جب علم حقیقی صورت میں عمل کی شکل اختیار کرتا ہے، تو وہ علم انتہائی خوبصورت انداز میں دوسروں کو صدیوں تک متاثر کرتا ہے۔

اگر پورے کے پورے کتابوں کی لائبریوں کے کتابوں کو کوئی ایک بار نہیں بار بار پڑھ کر حفظ کرلے، جب علم ہو عمل میں معمولی تضاد کا وجود ہو تو وہ علم کے زمرے میں نہیں بلکہ بدترین جہالت میں شمار ہوتا ہے۔ اصل علم ہمیشہ علم مکمل عمل میں پوشیدہ ہے، بغیر عمل کے شاید کروڑوں انسانوں کے پاس اچھا خاصا بغیر عمل کے صرف علم موجود ہو لیکن وہ علم بے فائدہ، بے اثر اور بے معنی ہوتا ہے۔

علم و عمل کے بغیر قومی آزادی کی خاردار راستوں پر چل کر ایک نا ایک دن کوئی بھی جہدکار ضرور ایک حالت، کیفیت، مقام پر غلط سمت یا غلط رخ پر محو سفر ہوگا یا پھر مایوسی تھکاوٹ اور الجھنوں کا شکار ہوگا۔ وہ علم اور علم ہی پر عمل اور شعور کی انتہاء ہے، جس نے آج علم و عمل کی علامت شہید رئیس کو انسانی تاریخ میں وہ مرتبہ اور وہ مقام عطاء کیا جو ہر کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔

دنیا کے انسانوں میں ایک عظیم انسان اور ایک عظیم ہستی ڈاکٹر چے گوہرا نے کیا خوب کہتے ہوئے یہ انکار کرچکا ہے کہ میں بے علم اور بے عمل لوگوں کو اس لیئے اپنا دوست اور ہمسفر بنانے کی حق میں نہیں ہوں کہ ایسے لوگ کسی بھی وقت گمراہ اور بے وقوف بن کر بھٹک کر غلط سمت اور غلط رخ محو سفر ہونگے۔

جہاں سیاسی نفسانفسی، الجھن، بیزاری، تذذب، ڈگمگاتے قدم، کنفیوژن، لالچ، خوف، خود غرضی اور تھکاوٹ کا بازار گرم ہو، وہاں سینہ تان کر دشمن کے خلاف نبردآزما ہوکر خود کو خود میں تحلیل کرکے پوری قوم کی بقاء اور خوشحالی کی امید کو لیکر سرخرو ہونا علم و عمل اور شعور کی انتہاء نہیں اور کیا ہوسکتا ہے؟

مصنوعیت کے لبادے کو اوڑھ کر صرف دعوے، باتیں اور دکھاوے کی حد تک بڑے بڑے برج اور بتوں کی منہ بھی کانوں تک پھٹ جاتے، جب ایسے کرشماتی نونہال باشعور باعلم و باعمل نوجوان بخوشی اور شعوری بنیادوں پر ہنستے و مذاق کرتے ہوئے قہقہہ لگا کر موت کے پروانے کو گلے لگاتے ہوئے تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوتے ہیں۔

اب اس روز روشن کی طرح عیاں حقیقت اور ادراک سے کوئی پاگل احمق اور بے وقوف انکار کرسکتا ہے کہ قربانی کے بغیر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر انتظار میں مستقبل قریب بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین اور بلوچ قومی بقاء کا تحفظ ہوگا۔

جب تک شعوری و فکری بنیادوں پر ایک منظم و متحرک قومی جنگ کا چہرہ دنیا کے سامنے پیش نہیں ہوگا اور بلوچ قوم ایک قومی قوت اور طاقت کے ساتھ دنیا کی توجہ اور نظروں میں نہیں ہوگا اس وقت تک بلوچ قوم کا مستقبل اس گرد و غبار میں انتہائی خطرناک شکل میں ہوگا۔

چینی قونصلیٹ پر کامیاب حملہ، بلوچ قومی تحریک اور قومی قوت کی طرف ایک اہم پیش رفت اور کامیابی ہے، اسی تسلسل کو لیکر بلوچ قوم کا مستقبل پرامیدی کی طرف گامزن ہوگا، اب یہ بلوچ قوم کے حقیقی قیادت پر منحصر ہے، وہ کیسے اور کس طرح آگے بڑھے گا، بلوچ نوجوان تو رئیس جان کی شکل میں اپنا قومی فرض اور قومی قرض کا حق پورا ادا کررہے ہیں۔