خان محراب خان؛ ایک عہد ساز شخصیت ۔ ذاکر بلوچ

858

خان محراب خان؛ ایک عہد ساز شخصیت

تحریر۔ ذاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

موجودہ بلوچ قومی مزاحمت اس عظیم جدوجہد کا تاریخی تسلسل ہے جس کی بنیاد 13نومبر 1839کو خان محراب خان نے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ طاقتور انگریز فوج کے تسلط کے خلاف ایک زبردست جنگ کا آغاز کیا، جس سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر ریاست برطانیہ نے بلوچ قوم کی طاقت کو منتشر کرنے کی پالیسی روا رکھی تاکہ اپنے استحصالی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔ خان محراب کی انگریز کے خلاف جنگ نے محراب خان کو جنوبی ایشیاء کے عظیم کرداروں کی صف میں لاکھڑا کردیا۔

پروفیسر عزیز بگٹی اپنی کتاب “بلوچستان شخصیات کے آئینے میں” خان محراب خان کو بلوچ تاریخ کا ایک ایسا نڈر لیڈر کہتا ہے جسکی ہمت و وطن سے محبت کا جذبہ قابل دید اور نوجوان نسل کے لئے قابل تقلید ہے۔ پروفیسرعزیز بگٹی لکھتے ہیں کہ “خان میر محراب خان بلوچوں کی تاریخ کا ایک ایسا ہی کردار ہے، اگر برطانوی سامراجی دور کی جدوجہد آزادی کے لئے لڑی جانی والی جنگوں کا مطالعہ کیا جائے تو خان محراب خان جنوب مغربی ایشیا کے ایک عظیم وطن پرست اور آزادی پسند اور وطن کی آزادی کی حرمت کے پاسبان اور جانثار نظر آتے ہیں۔”

یہ وہ دور تھا جب برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں برصغیر کے بیشتر حصے اپنے گرفت میں لے چکا تھا۔ روس کو اپنے مفادات کے خلاف خطرہ جان کر برطانیہ نے اپنا رخ شمال مغرب کی جانب کردیا تاکہ افغانستان پر قابض ہوجانے کے بعد بلوچ سر زمین بھی اسکے زیر نگین ہوجائیں لیکن نواب محراب خان اس منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئے۔

1830میں میجر لیچ کو انگریز فوج کے کمانڈر جنرل میکناٹن نے اپنے نمائندے کی حیثیت سے قلات بھیجا تاکہ خان سے معاہدہ کیا جاسکےاوراس معاہدے کی مدد سے خان پر اپنی گرفت مضبوط بنائی جاسکے لیکن محراب خان نے انگریز فوج سے کسی قسم کی معاونت نہیں کی۔ نواب محراب خان نہ صرف ایک بہادر و نڈر لیڈر تھے بلکہ ایک مخلص اور قوم دوست لیڈر تھے۔ انہوں نے کبھی مراعات کے لئے قومی وسائل اور قومی حمیت کا سودا نہیں کیا۔ خان ایک خود مختار لیڈر کی حیثیت سے ملکی نظام چلانا چاہتے تھے۔ انہیں غلامی سے شدید نفرت تھی۔

ڈاکٹر عنایت بلوچ اپنی “کتاب بلوچستان کا مسئلہ” میں لکھتے ہیں کہ “مارچ 1839کو سر الیگزینڈر برنز نے خان کے دربار میں معاہدے کے مسودے کے مطابق خان کو شاہ کی برتری تسلیم کرواکر سندھ کی فوج کو فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کی ذمہ داری اور بلوچستان کے عوام کے حملوں سے حکومت برطانیہ کے رسد کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری دی گئی اور اسکے عوض خان کو سالانہ ایک لاکھ پچاس ہزار کی امداد دینے کا وعدہ کیا لیکن خان نے محکوم ریاست کی حیثیت قبول کرنے سے انکار کرکے انگریز حکومت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ انگریزوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ محراب خان کو مراعات سے خریدا جائے لیکن محراب خان نے اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی۔”

لالا ہتورام تاریخ بلوچستان میں لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ خان کو مراعات کے ذریعے خرید لیا جائے یا خان قلات چھوڑ دیں لیکن خان مقدمہ کرنے پر اپنی جان دینے سے مستعد رہا۔

جب خان کو انگریزوں کے حملے کی اطلاع ملی تو اس نے تمام سرداروں کو قومی غیرت و بلوچ ننگ و ناموس کا واسطہ دیکر اپنی سر زمین اور اسکی آزادی کے تحفظ کی خاطر پکارا۔ مگر سرداران بلوچستان تحفظ کے بجائے انکو پامال کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ میر گل خان نصیر تاریخ بلوچستان کے اس المیے کو یوں بیان کرتے ہیں۔ “جب انگریز فوج بلوچوں کے ننگ و ناموس پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے میجر ولشائر کی قیادت میں قلات کی جانب بڑھ رہی تھی، لیکن ساراوان کے سرداروں نے مستونگ میں میجر ولشائر کا خیر مقدم کیا اور راشن پہنچاننے کے لئے اپنے آدمی اونٹ اور گھوڑے انگریزوں کو دیئے اور خود عورتوں کی طرح گھروں میں بیٹھ کر بلوچی ننگ و ناموس پر اغیار کی بد مستیوں کے تماش بین بنے رہے۔”

پروفیسر عزیز بگٹی بلوچستان شخصیات کے آئینے میں محراب خان کے ایک درباری آخوند محمد کی تحریر کردہ “خوانین قلات” جو فارسی زبان میں تحریر کی گئی تھی کا حوالہ دیکر لکھتے ہیں۔ جس میں وہ کہتا ہے کہ “میں نے اس صورتحال میں خان کو یہ مشورہ دیا کہ ہم انگریزی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ وقتی پسپائی اختیار کی جائے، جس پر خان نے کہا کہ میں جانتا ہو کہ انگریز لندن اور پورے ہندوستان کے بادشاہ ہیں۔ کابل پر بھی ان کا قبضہ ہے انکو قوت و غلبہ بھی حاصل ہے۔ میں اس بات سے بھی واقف ہوں کہ ان کامقابلہ سخت مشکل ہے لیکن میں اس ملک کو چھوڑ کر کہاں جاؤں۔ جس سرزمین کے لئے میرے آباو آجداد نے اپنا خون دیا، خدا کا شکرہے کہ اپنی زندگی میں غیر کے سامنے سر نہیں جھکایا، اپنی قوت پر حکمران رہا، کسی کی اطاعت نہ کی آج کیوں نہ اپنی سرزمین کے لئے اپنے جان کا نذرانہ پیش کروں۔”

یہ خان کے وہ تاریخی الفاظ ہیں جس سے انکی وطن دوستی کی جھلک ملتی ہے۔ یہ تاریخی الفاظ آج بھی بلوچ قوم دوستوں کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں کہ وطن کی محبت میں سر کٹانے والا تاریخ میں امر ہوجاتا ہے۔

انگریزی فوج میجر ولشائر کی قیادت میں 13نومبر1839کو قلات کے قریب پہنچ گئے۔ خان کے پاس ایک محدود لشکر تھا اور یہ سب مختلف بلوچ علاقوں کے عام بلوچ فرزند تھے، لڑائی میں شدید جھڑپ ہوئی جس میں خان محراب خان نے اپنی کئی جانثاروں کے ساتھ جام شہادت نوش کرگئے۔

مختصر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محراب خان ایک سچا وطن دوست حکمران تھا۔ جو اپنے قومی تشخص کے لئے انگریز کی طاقتور فوج کی مراعات کو ٹھکرا کر اس کے مقابلے میں کھڑا ہوا اور بہادری کے ساتھ میدان عمل میں برسر پیکار رہا اور اپنے آخری دم تک دشمن فوج کا مقابلہ کرتا رہا۔ بلوچ قومی تاریخ میں خان محراب خان کا نام ہمیشہ امر رہے گا کیونکہ جو اجتماع کے مفاد کے لئے اپنی جان کا نذرانہ دینے کے لئے تیار رہتے ہیں وہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جاتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔