جہدِ آجوئی ۔ سنگت بولانی

233

جہدِ آجوئی

تحریر۔ سنگت بولانی

دی بلوچستان پوسٹ

دل چیدہ چیدہ اشک بھی پرنم
پھر بھی ساحلِ امید پہ کھڑے ہیں ہم
حوصلے ٹوٹتےہیں، غمِ اطراف کودیکھ کر
ہمتیں بکھر رہے ہیں کر مولا تو اپنا کرم

چند دنوں سے دل پے ایک بھاری بوجھ لے کر ہر ایک لمحہ کھٹن ہوتا جا رہا ہے، دماغ اور دل میں گھمسان سا جنگ جاری ہے کبھی دل حاوی تو کبھی دماغ۔

انتہائی شرمناک مقام ہے کہ کچھ لوگ قلم اٹھا کر فہم اور شعور کے بلند و بالا مقام پے اپنا جھنڈا گھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی مظلوم اور مجبور کے احساسات اور جذبات کو مجروح کرکے سیاسی شہید ہونے کی کوشش کرتے ہیں، اپنا سیاسی دکان چمکانے کیلئے سامنے تو دلی ہمدردی کا ڈھونگ رچاتے ہیں لیکن پیٹ پیچھے چھری گھونپنے والے کردار بھی وہی ہوتے ہیں۔

آج ایک بہن کے آنسو دیکھ کر دل میں ایک ایسا زخم لگا ہے کہ یہ دل میں طوفان برپا کرگیا ہے، دماغ پہ ایک ایسی کیفیت طاری ہوئی ہے کہ جیسے آج قیامت ہونے والا ہے اور ضمیر ایسی بیڑیوں میں بندھی ہوئی ہے کہ آگے کنواں پیچھے کھائی سا نظر آتا ہے۔

ظلم، بربریت، جبر کا ایک ایسا خطہ جہاں انسانی حقوق کے پامالیاں،چادر و چار دیواری کی پامالی، ننگ و ناموس کی پامالی، شریف، بوڑھے، بچے، عورتوں کی تذلیل کرنا عام سی بات ہے۔ ایک ایسے طاقت کے روبرو جو کئی دہائیوں سے اپنے ظلم، وحشت، نفسیاتی خوف پھیلا کر اپنا گرفت مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، جو اقوامِ عالم اور دنیا کے اصولوں کے دائرے میں ایسے وحشتوں کی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔

آج ہمارا دشمن واضح ہو چکا ہے، نیلس منڈیلا کی اک بات یاد آتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ” follow my rule and regulations. If you don’t; then stand where there Land change my rules” پہلے لالا بلوچ کہتا تھا کہ یہ جنگ دشمن کے ہاتھوں میں ہے وہ کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔

لیکن اب یہ جنگ ہمارے ہاتھوں میں ہے کیونکہ ہم اس نہج پہ ہیں کہ ہماری عورتیں سڑکوں پہ ٹھوکریں کھارہی ہیں اور اپنے پیاروں کیلئے بلک بلک کر رو رہے ہیں، جو ہر دانشور کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔