جدوجہد جاری ہے
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
فینن کہتا ہے آپ کسی بھی سطح پر تجزیہ کریں نوآبادکار کی شکست ایک متشددانہ عمل ہوتا ہے۔ آگے چل کر وہ وضاحت کرتا ہے کہ تشدد کا اصل مرکزی کردار نوآبادکار ہوتا ہے اور اس کی بہیمانہ طاقت دیسی پر جبر کا قہر بن کر ٹوٹ پڑتا ہے۔ نجات کے تاریخی عمل میں دیسی طاقت کا رخ ہی موڑتا ہے اور اس کی ہمہ جہتی تحریک مراحل در مراحل اول کو آخر اور آخر کو اول کردیتا ہے۔ نوآبادیات کا لفظ شاید چند دوستوں کے لیے ایک انتہائی لفظ ہے لیکن اس کی حقیقت لفظی بیانیہ سے کئی گنا زیادہ انتہائی حد تک بھیانک ہے۔
نوآبادیاتی نظام کے خلاف برسرپیکار قوموں کی تاریخ وسیع ہے اور ایسے بے سروسامانی میں مزاحمتی تحریکوں نے سر اٹھایا جب کوئی امکان موجود نہیں تھا لیکن یہ دیسی کا پختہ عزم و جہد مسلسل تھا جس نے دیو قامت نوآبادیاتی قوتوں کو شکست فاش سے دوچار کردیا۔
عمر مختار جب گرفتار ہوا، تب اس سے کہا گیا وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتے تب عمر مختار نے کہا ایک اور نسل آجائیگی لڑنے کے لیے پھر ایک اور۔۔۔ اور میں اپنے دشمن سے زیادہ جیونگا۔۔۔لیبیا آزاد ہوگیا اور عمر مختار اب بھی ایک مثالی کردار کے طور پر جی رہا ہے۔
ذرا تصور کیجیے اگر عمر مختار گھٹنے ٹیک دیتا اور مایوس ہوجاتا تو کیا آج عمر مختار کو ہم بطور مثال پیش کرتے؟ جو جدوجہد کرتے ہیں وہی کسی منزل تک پہنچ سکتے ہیں وگرنہ آج تک مایوس انسانوں نے ماسوائے مایوسی کے کچھ نہیں دیا ہے۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جب کے پاس مصلحت پسندی کے ماڈل تیار ہیں اور وہ تحریک سے مایوس ہونے اور نوآبادیاتی نظام میں ایڈجسٹمنٹ کے لیے ان ماڈلز کو مثالی بنا کر پیش کرینگے لیکن جب بھی وہ بلوچ تحریک کے ایسے کرداروں پر بات کرینگے جنہوں نے جدوجہد پر سمجھوتہ نہیں کیا تو ان کا رویہ منفی ہوگا۔ وہ ہزار عذر بیان کرینگے اور سارا ملبہ جہد پر ڈالیں گے لیکن وہ یہ نہیں تسلیم کرینگے کہ نوآبادیاتی نظام ہی تمام برائیوں کی اصل جڑ ہے کیونکہ انہوں نے اپنے ذہن میں مصلحت پسندی کا ایک ماڈل ترتیب دے دیا ہے اور وہ جدوجہد سے بیزار ہوکر فقط ناکامی اور مایوسی تک ہی اپنے سوچھ کو محدود رکھیں گے۔
دوسری جانب وہ جہدکار ہیں جو نوآبادیاتی نظام کے خلاف عملاً برسرپیکار ہیں، جو مسلسل جدوجہد کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور ناکامیوں و خامیوں پر قابو پاکر انہیں طاقت میں ڈھالنے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ ان کے پاس رول ماڈل ایسے کردار ہیں جنہوں نے کھٹن سے کھٹن حالات میں جدوجہد کی لیکن اپنے نظریہ سے دستبردار نہ ہوئے اور آنے والے نسلوں کے لیے ایک روشن مثال بن گئے۔
بلوچ شہدا روشنی کا ایک طویل سلسلہ ہے جو خان محراب شہید، حمل جئیند شہید سے لے کر اب تک شہیک جان،ریحان جان و سنگت چیرمین تک روشنیوں سے بھرپور ہے۔ یہ وہ فرزند تھے جنہوں نے شعوری طور پر جدوجہد کا راسطہ اپنایا، انسانی حوالے سے کمزوریاں و خامیوں کے امکان سے انکار نہیں لیکن دھرتی کے یہ فرزند فکری طور پر اس حد تک پختہ تھے کہ انہوں نے اپنی جدوجہد کو آخری حد تک جاری رکھا اور آج یہ جدوجہد ہمارے حوالے ہے تو ہمیں بھی اس جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے معیاری ماڈل اپنانے ہونگے۔
ہم مایوس کیوں ہوں؟ جدوجہد جاری ہے اور آخری حد تک اسے جاری رکھنے کا عزم لازم ہے کیونکہ نوآبادیاتی نظام کے لیے ہمیں ایک طویل مدت جدوجہد کی ضرورت ہے، جدوجہد کو منظم کرتے ہوئے ہمہ جہت بنانے کی ضرورت ہے۔ سب دوستوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا قومی فریضہ سرانجام دیں یہی شہدائے بلوچ و بلوچستان کا ارمان اور ہماری عظیم قومی منزل ہے۔
ہم اس تحریک کے بغیر ایک بے جان و بے ہنگم ہجوم کے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ ہماری بقاء ہماری تحریک ہے اور اس تحریک کو ہم جتنا منظم کرینگے اور جتنی سنجیدگی سے وقت دینگے اتنا ہی جلد ہم اس کو منزل مقصود کے قریب پہنچائینگے۔ ہمارا ماڈل ہمارے عظیم شہدا ہونے چاہیے جنہوں نے کہیں بھی اپنے مقصد پر سمجھوتا نہیں کیا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔