تیرہ نومبر شہدائے سے عہد کا دن
تحریر- فریدہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
13 نومبر طویل قربانیوں کی داستان 13 نومبر وطن کے ان بہادر فرزندوں کے نام جو غلامی کی سیاہ رات کو ایک خوبصورت و روشن صبح میں بدلنے کےلیئے اپنی زندگی اپنی سانسیں ہمارے اور ہمارے آنے والی نسلوں کیلئے قربان کرگئے۔
13 نومبر 1839 کو خان محراب خان کی شہادت سے شہادتوں کا سلسلہ بلوچ وطن پر جبری قبضے کے خلاف شروع ہوا تھا، جو آج بھی جاری ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی وطن پر مشکل وقت آئی ہے تو وطن کے بہادر حقیقی فرزندوں نے اپنے سروں پر کفن باندھ کر مادر وطن کی حفاظت کے لئے اپنے لہو سے پہاڑ، میدان، ریگستانوں کو رنگ دیا ہے۔ 13 نومبر کو ان سب شہداء کی بے مثال قربانیوں کو یاد کرنے کا دن ہے۔
آزادی کی اس کارواں میں شامل ہزاروں ماؤں نے اپنے لخت جگر قربان کیئے، ہزاروں بہنوں نے اپنے بھائی قربان کیئے ہمارے والد، بھائی، بہن سب نے اس سیاہ رات کو ایک خوبصورت و روشن صبح میں بدل دینے کیلئے لہو بہایا، بلا کسی خوف کے اپنی جان نچھاور کرتے گئے اس امید اس آس کے ساتھ کہ ہمارے بعد ہماری نسلیں وہ غلامی نہ دیکھیں جو ہم نے گزاری، ہماری آنے والی نسلیں اپنی شناخت، اپنا وطن، آزاد فضاء میں سانس لے سکیں۔
انسانی زندگی کی شروع سے ہی ظالم و مظلوم، طاقت و بے بس کا وجود موجود رہا ہے، طاقتور و قابض نے ہمیشہ مظلوم قوم کو اپنا غلام بنانے اور اس کی دھرتی پر قابض رہنے کیلئے ہر وہ ظلم و جبر و تشدد آزمایا ہے جو اسکی قبضہ گیری کو تقویت دے سکے لیکن تاریخ گواہ ہے مظلوم نے ہمیشہ اپنی شناخت، اپنے وطن کا دفاع اپنا لہو بہا کر کیا ہے۔
مادرے وطن بلوچستان پر جب بھی کوئی آکر قابض ہوا ہے یا قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے تو مادر وطن بلوچستان کے بہادر فرزندوں نے اپنے آپسی اختلافات، اپنے آپسی تمام مسائل کو پس پشت ڈال کر اپنے وطن کی حفاظت کیلئے اور قبضہ گیر کو باہر نکالنے کیلئے اپنا لہو بہا کر دنیا میں زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
دنیا میں جتنے بھی قوم ہیں، سب اپنے وطن کی حفاظت میں اپنا لہو بہانے والے کو ایک دن خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ہم بحیثیت بلوچ قوم اپنے شہداء کیلئے ایک دن یعنی 13 نومبر کو مختص کرکے اس دن ان تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اس دن ہم یہ عہد لیتے ہیں کہ شہداء کے خون کی لاج رکھ کر اپنے وطن سے غلامی کے اس داغ کو مٹا کر رکھیں گے جس میں ہم مرد و زن جوان و بوڑھے سب مل کر ان شہدا کے مشن کو اس سحر تک لے چلینگے جس کی خاطر ہمارے شہدا نے قربانی دی ہے-
شہدا کی اس عظیم دن ہم سے یہ عہد لیتی ہے کہ جس مقصد کے لئے ان شہداء نے اپنا لہو اپنی سانسیں قربان کی ہے ہم اس مقصد کو زندہ رکھیں اسی میں ہماری بقاء ہمارے نسلوں کی خوشحالی و جاودانی کا ثبوت ہے-
ہم اس دن یہ عہد کرتے چلیں کہ ان شہداء کی قربانی، جنہوں نے اپنے سینے پر بارود باندھ کر دشمن کو نیست کرنے چلے انہوں نے جو آخری گولی کا انتخاب کیا انہوں نے جو ہتھیار پھینکنے کے بجائے لڑ کر شہادت کو قبول کیا، انہوں نے جو زندان کے کرب ناک سیاہ راتوں میں چراغ مانند ڈٹ کر مقابلہ کرکے شہید ہو گئے، انہوں نے جو چٹانوں کے مانند حوصلوں کو بلند رکھنے کے لئے اپنے جان کا نظرانہ دیا۔
ایسے سپوتوں کی قربانی لمحہ بھر بھی خیالوں سے اوجھل نہیں ہوسکتی، وہ عظیم ہیں اور ہم انکے راہ کے مسافر انکے بعد انکے حصے کا کام بھی ہمیں انجام دینا ہوگا بالکل انہی کے طرح انا، خود پسندی، ضد، ہٹ دھرمی سے پاک ہوکر خلوص نیت سے انکے مشن کو لیکر آجوئی کے سفر کو جاری رکھنا ہوگا، تب جاکر ہمارے شہدا کا چنا ہوا رستہ اپنے منزل پے پڑاؤ ڈالے گا امید و ارادہ کرتی ہوں، سفر ان کندھوں کے ساتھ جاری رہے گی جو شہدا کے مشن کا حقیقی وارث ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔