توارش بلوچ – ‎ سیما مجھے معاف کرنا

325

سیما مجھے معاف کرنا

‎تحریر : وارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎سیما میں بہت کچھ بولنا چاہتا ہوں، بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں، میرے ساتھ آپ کے آنسوؤں کو بیان کرنے کیلئے بھی ہزاروں الفاظ ہیں کیونکہ ایک لکھاری کیلئے سب سے بڑی مشکل ایک موضوع کا تعین کرنا ہے لیکن جب آپ کی جانب دیکھتا ہوں تو ہزاروں موضوع لکھنے کو مل جاتے ہیں، شبیر بھی ایک موضوع ہے، اس کی گمشدگی بھی ایک موضوع ہے، وہ ٹارچر سیل بھی بیان تحریر ہیں جہاں پیچھلے دو سال سے شبیر موت کی آغوش میں ہے، آپ کے آنسو بھی موضوع اور وہ درد بھی موضوع جس کو پیچھلے دو سالوں سے آپ اور زرینہ بہن اپنے سینے میں لیئے ہوئے ہیں، لوگوں کی خاموشی اور بلوچیت کا نعرہ لگانے والے بھی موضوع، اختر مینگل اور اس کے پارٹی کے چھ نکات میں سے لاپتہ افراد کی بازیابی بھی ایک موضوع۔ میں اس سوچ میں تھا کہ ان موضوعات میں کس پر رقمطراز کروں کس پر اپنے جزبات کا اظہار کروں۔

‎سیما مجھے معاف کرنا، یہی وہ موضوع ہے جس پر میں سمجھتا ہوں کہ مجھے لکھنا ہے معافی اس لیے کہ آواران سے یہاں پتہ نہیں کون سے مصیبتوں کا سامنا کرتے ہوئے آپ یہاں آئے ہو پتہ نہیں آپ کے پاس پیسے ہونگے کہ بھی نہیں جبکہ آپ کے یہاں کمانے والا بھی کوئی نہیں، آپ اس کے باوجود شبیر کی غمزدہ شریک حیات کو لیکر کوئٹہ آئے ہیں، اس اُمید کے ساتھ کہ یہاں بلوچ کثیر تعداد میں رہتے ہیں، میڈیا بھی ہے، بلوچ دانشور بھی یہاں رہتے ہیں، انسانی حقوق کے علمبردار بھی ایک خاصی تعداد میں یہیں پر ہیں، کورٹ اور انصاف کے رکھوالے بھی موجود ہیں۔

‎نام نہاد عالمی ادارے بھی ہیں، وزیر اعلیٰ سمیت سب بڑے طاقت ور یہیں پر بیٹھے ہیں، اختر مینگل اور اس کی پارٹی کی لیڈرشپ بھی ہے، بلوچ پڑھے لکھے نوجوان بھی ہیں، شاعر و ادیب بھی ہیں، ان سب کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے آپ اپنے آپ کو کوئٹہ تک پہنچانے میں کامیاب ہو پائے، اس اُمید میں کہ اب شاید مجھے اپنے پیارے بھائی شبیر جان کا پتہ چلے کہ وہ کہاں پر ہے، کس حالت میں ہے اور کبھی کبھی نا چاہتے ہوئے بھی ذہن میں آتا ہے کہ زندہ بھی ہے کہ نہیں، اس سوال کے جواب کی تلاش میں آواران سے کوئٹہ تک کا سفر کیا۔

لیکن سیما مجھے معاف کرنا میں کیا بتاؤں ان سب بے ضمیر لوگوں کا جس کیلئے آپ اتنی بڑی اُمید لگائے بیٹھے ہیں، جن انسانی حقوق کے علمبرداروں کے پاس آپ اپنی آواز لیکر آئے ہو، یہ سب مفاد پرست ہیں، یہ اُس وقت انسانی حقوق کی بات نہیں کرتے جب تک وہ اپنے مفاد کی کوئی چیز نہیں دیکھتے، یہ تب تک خاموش رہتے ہیں جب تک انہیں یقین نہیں ہوتا کہ اس پر بات کرتے ہوئے انہیں کچھ نقصان نہ پہنچ جائے، آپ کن دانشوروں کے واسطے اتنی بڑی طویل سفر طے کرکے آئے ہو، ان نام نہاد دانشوروں کے واسطے جو پچھلے بیس سالوں سے بلوچستان میں ہونے والے تباہی پر خاموش ہیں؟ جو آجتک یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلہ کا حل کیا ہے؟ پھر یہ آپ کی کیسے بات سنیں گے ان کی قلم وہاں چلنا شروع کرتا ہے جہاں پیسہ ہے، مفاد ہے، لالچ ہے نام ہے، باقی مظلوموں کیلئے ان کا قلم ہمیشہ سے ہی بے سیاہی رہا ہے۔

‎جن کورٹ و انصاف کے رکھوالوں کی اُمید میں آپ سیما آئے ہو، یہ سارے بکے ہوئے لوگ ہیں، جنہیں انسان و انسانیت سے بالکل واسطہ نہیں ہے، جو بس اپنا تنخواہ لیتے ہیں اور اوپر سے آئے ہوئے آرڈر مانتے ہیں، یہ بھی آپ کو کوئی انصاف دلا نہیں سکتے، باقی بات عالمی اداروں کی ہے تو اُنہیں پتا بھی نہیں کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے، یہ ریاست اور ریاستی میڈیا کے بیانیئے پر مطمین بیٹھے ہیں ان کو کوئی غرض نہیں کہ بلوچستان میں کتنے لوگ لاپتہ ہیں کئیوں کی مسخ شدہ لاش ملی ہیں، بہن سیما ان سب کے سیاسی ایجنڈا ہوتے ہیں، یہ بات اس وقت کرتے ہیں جب وہ ریاست کو پریشرائز کرنے کی کوشش میں لگے ہونگے تب تک ان کی جانب سے بھی کوئی انصاف نہیں ملے گا۔

میری بہن سیما شاید آجکل آختر مینگل اور اس کی پارٹی کی جانب سے ہونے والا دعوے کو آپ حقیقت سمجھ کر یہاں آئے ہونگے کہ شاید آختر مینگل و اس کا پارٹی مجھے سپورٹ کرے تاکہ میں اپنے گمشدہ بھائی کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہو جاؤں لیکن بہن یہاں بھی کوئی مدد کرنے والا نہیں آپ کا کیونکہ یہ ریاست کے اپنے حامی لوگ ہیں اور جن لاپتہ افراد کا کارڈ انہوں نے دوران الیکشن استعمال کیا ہے، بس اپنے سیاسی مقاصد کیلئے تاکہ قوم کے اندر ہمارے لیے کوئی ہمدردی قائم ہو جبکہ حقیقت میں ان میں سے کوئی بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے مخلص نہیں، ماما قدیر پچھلے نو سالوں سے پریس کلب میں بیٹھا ہوا ہے، کیا کبھی آختر مینگل نے وہاں جانے کا گوارا کیا ہے بلکل نہیں کیونکہ یہ کبھی بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے مخلص نہیں رہے ہیں۔

‎باقی بچا میڈیا تو بہن میں عرض کرتا چلوں کہ میڈیا بھی ایک ظالم ادارہ بن چُکا ہے، جو آپ کے درد کو کبھی بھی محسوس نہیں کر سکتا، کوئی خوف کے عالم میں آپ کو کوریج نہیں دے گا، تو کوئی اپنے میڈیا کو چلانے کی غرض میں لیکن ان سے اُمید رکھنا سوائے اپنے دل کو تسلی دینے کی بے فائدہ ہے سیما بہن یہاں کوئی بھی مخلص نہیں سب اپنا اپنا کاروبار چلانا چاہتے ہیں میں بھی خوف کا مارا ایک طالب علم ہوں، جو خوف اور ڈر کی وجہ سے آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا کیونکہ مجھے بھی ڈر ہے کہ کہیں مجھے بھی لاپتہ کیا نہ جائے اس لیے مجھے بھی معاف کرنا بہن۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔