تعلیمی نفسیات، فلسفہ اور سماج ۔ بشیر زیب

2979

تعلیمی نفسیات، فلسفہ اور سماج

بشیر زیب

دی بلوچستان پوسٹ

ذریعہ تعلیم اور ماحول سے انسان علم حاصل کرتا ہے، علم سے نابلد اور بیگانہ انسان خود میں عالم ہوتا ہے، جب انسان علم سے واقف ہوتو خود میں ہمیشہ علمی حوالے سے نامکمل ہوتا ہے اور وہ شعوری بنیاد پر یہ مانتا اور جانتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا ہوں اور جب عمل سے محروم ہو تو ہمیشہ بے علم شمار ہوتا ہے۔

تھامس ہنری ہکسلے کے نزدیک زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد علم نہیں بلکہ عمل ہے۔ تقریباً تمام اقوام و سماج اور معاشروں میں ہردور میں بلکہ آج بھی کچھ بنیادی چیزوں کے بارے میں ایسے بیہودہ، غیرمنطقی کہاوتیں، باتیں، قصے اور مبالغہ آرائیاں موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں یعنی جن کا نا سر ظاہر نہ دم اور نہ جستجو کی تگ و دو اور لگن موجود ہے۔

مثال کے طور پر ’’سر وڈے سرداراں دے، پیر وڈے گنواراں دے۔‘‘ یعنی سرداروں کے سر بڑے ہوتے ہیں، جبکہ گنواروں کے پیر بڑے ہوتے ہیں۔ مطلب سردار عقل اور ذہانت کے مالک باقی لوگ حقیر و فقیر اسی طرح لمبے قد کے لوگ بے وقوف اور چھوٹے قد کے لوگ منافق، فلاں علاقے کے لوگ دھوکے باز شیطان قسم کے ہوتے ہیں، فلاں علاقے کے لوگ اچھے ذہن اور شریف النفس انسان ہوتے ہیں۔ پھر کیا دنیا میں تمام لمبے قد کے لوگ بے وقوف اور چھوٹے قد کے لوگ منافق ہیں؟ کیا دنیا میں تمام دھوکے باز اور شیطان لوگ اسی ایک علاقے کے ہوتے ہیں؟ کیا دنیا میں تمام وہ شریف النفس اچھے اور ذہن انسان اسی ایک علاقے کے ہوتے ہیں؟ فلاں شخص کا بہت بڑا دل ہے، وہ بہادر ہے۔ کیادل خود ایک جسمانی عضو نہیں ہے؟ کیا انسانی جسم کا کوئی بھی عضو ایک مخصوص مدت کے بعد بھی یعنی افزائش کے مرحلے سے گذرتا ہے؟ یعنی کبھی چھوٹا اور کبھی بڑا ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کوئی بہادر انسان کبھی کیوں بزدل ہوتا ہے اور بزدل تو کبھی بہادر بھی ہوتا ہے؟

اسی تناظر میں آج بھی ہم بحیثیت انسان جانوروں سے نمایاں فرق اور ممتاز ہونے کے دعویدار اس جدید اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دور میں جس طرح غیر منطقی غیر سائنسی اور غیر فلسفیانہ پرانے گھسی پٹی کہاوتوں باتوں قیاس آرائیوں اور مذہبی، قبائلی، روایتی، سماجی زنگ آلود زنجیروں میں اپنے آپ کو قید کرکے مختلف چیزوں کی اصل شکل و صورت کو جس بے دردی کے ساتھ مسخ کرکے پیش کرتے ہیں، اس سے دنیا کے ماہرین نفسیات اور علم فلسفہ کے خالق کی روح کو ٹھیس ضرور پہنچے گا اور ان کی کتابوں کے اوراق بھی کانپتے ہونگے اور جو آج بھی زندہ ہیں، اگر ان کی تکلیف کا انتہاء ہوگی اور ضرور یہ سوچیں گے کہ نسل انسانی کو کب شعور ہوگا؟ کب جہالت کی تاریک گلیوں سے کمبخت انسان نکل کر علم کی روشی میں اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو پورا کرکے تاریخ میں کردار ادا کریگا۔

تعلیم و علم، شعور و منطق، ذہانت، ادراک، حواس، غور و فکر، جستجو، سچائی، حقیقت، ذہنی نشوونماء تخلیق و تحقیق وغیرہ وغیرہ کیا ہیں؟ کیسے تشکیل پاتے ہیں؟ کہاں سے تشکیل پاتے ہیں؟ اور کب پاتے ہیں؟ روایتی انداز سنی سنائی باتوں اور رٹے بازی کی حد تک یہ تمام انسانی زندگی کی طرز عمل اور کردار نبھانے کی بنیادی چیزوں کو بارے میں ہر ایک کے پاس طویل فہرست موجود ضرور ہے۔

میں نے پہلے بھی ذکر کیا، نہ ہی ان کی سر اور نہ ہی ان کی دم ظاہر ہیں لیکن فلسفیانہ اندازمیں جستجو و تحقیق اور علم نفسیات کی روشنی میں کسی کے پاس کچھ نہیں ہے، ضرور تمام فلاسفروں مفکرین اور ماہرین نفسیات کی ان بنیادی چیزوں کے حوالے سے آراء خیالات تھیوری اور موقف قدرے مختلف ہوتے ہوئے بھی کسی نا کسی حد تک کچھ قریب سے قریب تر بھی ہیں، مگر پھر بھی ہم ہمیشہ ان علمی و عقلی اور تجرباتی خیالات، آراء اور حقائق سے کوسوں دور بس صرف روایتی انداز، سوچ و فکر کی قیدخانوں میں مقید نسل در نسل سماجی، روایات کی تسلسل کے ساتھ محو سفر ہیں۔ اسی لیئے تو الجھنوں کا شکار ہوکر اپنی اصل ذمہ داریوں سے نابلد و بے خبر ہم سماج میں وہ کردار نبھانے اور سماج کو تبدیل کرنے کی اہل نہیں ہوسکتے ہیں۔

تعلیم کیا ہے؟ تعلیمی نفسیات کیا ہے؟ فلسفہ کیا ہے؟ تعلیمی فلسفہ کیا ہے؟ کیا علم فلسفہ اور علم نفسیات میں فرق ہے؟ کیا تعلیم سے سماج تبدیل ہوسکتا ہے؟ یا تعلیم خود سماج کی کوکھ سے جنم لینے والی شے ہے؟ پھر سماج کو کیسے تبدیل کرسکتا ہے؟ کیا ذہانت تعلیم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے؟ پھر خداداد صلاحیت یا وجدان کیا ہے؟ کیا کسی میں خداداد صلاحیت نہ ہو وہ تعلیم کے ذریعے ذہانت حاصل کرسکتا ہے؟ کیا ذہانت وراثت میں بطور تحفہ ملتا ہے؟ کیا اگر کسی انسان کے ماں باپ، دادا پر دادا نالائق نکمے اور سست انسان ہوں، پھر بچہ بھی اسی طرح ہوگا؟ پھر وہ تعلیم کے ذریعے ذہانت حاصل کرسکتا ہے یا نہیں؟ کیا تجربے سے علم اور تعلیم حاصل ہوسکتا ہے؟ کیا ہر تجربہ کارتعلیم یافتہ اور باعلم ہوتا ہے؟ پھر کیا ہر تعلیم یافتہ اور باعلم تجربہ کار ہوسکتا ہے؟

اگر فلسفے کا معنی و مفہوم علم سے محبت گوکہ فلسفے اور فلاسفروں کا کام کائنات، روح، جسم ، موت، زندگی چاند، سورج زمین، آسمان اور خدا کیا ہیں؟ اور کیسے وجود میں آئے؟ کب وجود میں آئے؟ چلو ٹھیک یہ فلسفہ اور فلاسفروں کا کام اور انسان کو سمجھنا ماہرین نفسیات کا کام ہے۔ کیا پھر بھی ہم بحیثیت انسان اور انسانوں سے رشتے اور تعلق کی بنیاد پر انسانوں کو ایک دوسرے کو علم نفسیات کی روشنی میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہ کرلیں؟ کیا بحیثیت انسان ہمارا کائنات روح، جسم، زندگی اور موت سے رشتہ ہوتے ہوئے پھر بھی فلسفیانہ انداز میں ان چیزوں کے بارے میں غور نہ کریں؟

فرض کریں ہم کہتے ہیں ضروری نہیں ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیوں ضروری نہیں ہے؟ پھر حیوان اور انسان میں بنیادی فرق اور انسان کی حیوانوں میں ممتاز ہونے کا دعویٰ کس بات کی؟ بالکل یہ بھی ممکن ہے اور ممکن نہیں بھی کہ سب کے سب فلاسفر اور ماہر نفسیات ہوں لیکن اس دنیا میں رہتے ہوئے اگر تمام دنیاوی اشیاء اور انسانوں کو نفسیاتی علم کی روشنی میں پرکھا جائے یا فلسفیانہ انداز میں جستجو اور غور کرنا چاہیئے اس میں عیب اور مصیبت کس چیز کی ہوگی؟ پھر کیا ہم بحیثیت انسان غلط سمت اور غلط رخ میں محو سفر ہونگے؟ اور کوئی بھی قوت ہمیں دھوکہ و فریب کی چکھی میں ڈال کر دبوچ لے گا؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں۔

عموعی اور روایتی طور پر تعلیم کا مفہوم اور تعریف اسکول کالج مدرسہ اور یونیورسٹیوں سے لیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا مفہوم اس سے کچھ مختلف اور کچھ زیادہ ہے، فلسفیوں نے تعلیم کے بارے میں یہ انکشاف کیا ہے کہ یہ ایک مقصد عمل ہے اس کے ذریعے انسان کے علم وفن میں اضافہ کیا جاتا ہے اور اس کی طرز عمل میں تبدیلی کی جاتی ہے۔

پلیٹو(Plato)کی نظر میں تعلیم کا اہم کام بہترین شہریوں کی تعمیر کرنا ہے، ان کے لفظوں میں Education is a mean of developing good citizens یعنی تعلیم بہترین شہریوں کی تعمیر کا ایک سرچشمہ ہے۔

لیکن ماہرین نفسیات نے اس بات کی تو ضیح کی ہے کہ انسان کی نشوونما اس کے خداداد صلاحیتوں اور اس کے ماحول پر منحصر کرتی ہے، اس لیئے تعلیم کے ذریعے سب سے پہلے انسانوں کی خداداد صلاحتیوں کی نشوونماء کرنا چاہیئے اور اس کے بعد انھیں سب سکھانا چاہیئے جو معاشرہ یا ملک انھیں سکھانا چاہتا ہے۔

جس طرح پستالاذی (Pestalozzi) تعلیم کی تعریف اسی بنیاد پر یوں بیان کرتا ہے
Education is natural harmonious and progressive development of man’s innate powers.
یعنی تعلیم انسان کی خداداد صلاحتوں کا قدرتی ہم آہنگ اور ترقی پذیر نشونما ہے۔

بھارت کے مہاتما گاندھی جس نے basic education بنیادی تعلیم کے نام پر باقاعدہ ایک تعلیمی نظام متعارف کروایا تعلیم کے تعریف کے حوالے سے گاندھی جی بھی کہتا ہے تعلیم سے میری مراد اطفال اور انسان کے جسم شعور اور روح کی ہمہ جہت اور بہترین نشوونما ہے۔

ایک بات یاد رکھنا چاہیئے نشوونما اور افزائش میں فرق ہوتا ہے، نشوونما انسانی ذہن کی ترقی اور تبدیلی کے لیے استعمال ہوتا نشوونماء افزائش کے ساتھ ساتھ اس کے جسمانی اور ذہنی طرز عمل میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہوتا ہے اور افزائش کی پختگی حاصل کرنے کے بعد رک جاتی ہے لیکن اس کے جسمانی اور ذہنی طرز عمل میں مسلسل تبدیلی ہوتی ہے یعنی انسانی نشوونماء ایک مسلسل عمل ہے اور پیدائش سے موت تک جاری رہنے والا عمل ہے بقول فرینک کے افزائش سے مراد خلیوں میں ہونے والے اضافے سے ہوتا ہے، جیسے لمبائی اور وزن میں اضافہ جب کہ نشوونما سے مراد انسان میں ہونے والی مکمل تبدیلیوں سے ہوتا ہے جسم کی ترقی اور تبدیلی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

تو ہم تمام فلسفیوں ماہرنفسیات ماہر سیاسات اور ماہرعمرانیات ان سب کے ذریعہ منکشف تعلیم سے متعلق حقائق کی بنیاد پر تعلیم کی مندرجہ ذیل طور پر تعریف یوں کرتے ہیں۔

تعلیم کسی سماج میں ہمیشہ چلنے والا وہ با مقصد عمل ہے جس کے ذریعے انسان کی خداداد صلاحتیوں کی نشوونما اس کے علم و فن میں اضافہ اور طرز عمل میں تبدیلی کی جاتی ہے اور اسے ایک مہذب، تہذیب یافتہ شہری بنایا جاتا ہے اس کے ذریعے فرد اور سماج دونوں مسلسل ترقی کرتے ہیں۔

تعلیمی نفسیات اور نفسیات کے فرق کو لیکر تو نفسیات ایک آزاد مضمون ہے، تعلیمی نفسیات اس مضمون کا ایک شاخ ہے نفسیات ایک سائنس ہے، تعلیمی نفسیات ایک عملی سائنس ہے، نفسیات کا میدان بہت وسیع ہوتا ہے، اس میں چرند و پرند دونوں کے طرزِ عمل کے عناصر محرکات اور اختیاری اجزاء کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تعلیمی نفسیات کا محدود ہوتا ہے، اس میں صرف انسان کے طرز عمل کے عناصر محرکات اور اختیاری اجزاء کا مطالعہ کیا جاتا ہے، تعلیمی نفسیات میں صرف اس لیے انسان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں اور طرز عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے کیونکہ صرف انسان ہی تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہے کیونکہ تعلیمی نفسیات ایک حقیقی سائنس ہوتے ہوئے اس کی روشنی میں تعمیر کردہ اصول و ضوابط معروضی عالمگیر اور مستند ہوتے ہیں بلکہ انھیں تجربات کے ذریعے ثابت کیا جاسکتا ہے گوکہ تعلیمی نفسیات حقیقی سائنس ہوتے ہوئے بھی مکمل طور پر خالص سائنس نہیں بلکہ اس کے ذریعے تعمیرکردہ اصول و ضوابط کی درستگی ہمیشہ تعلیمی نفسیات کو حقیقی علم سائنس سے بہت قریب تر کرتا ہے ،تو تعلیمی نفسیات اور فلسفہ تعلیم کو ایک ساتھ لیکر ان کی الگ الگ شناخت و فرق کے ساتھ ماہرین نفسیات اور فلسفیوں کے کردار و افکار کی آراء و موقف کی روشنی میں مزید اپنے موضوع کے لیے مزید کچھ استفادہ حاصل کرنے کوشش کرتے ہیں۔

مغربی ممالک میں انسان کی تعلیم میں نفسیاتی حقائق کا استعمال تو بہت پہلے سے ہوتا آرہا ہے لیکن اسے سائنسی شکل دور جدید میں ہی فراہم کی گئی، خاص کر یونانی فلسفیوں میں پلیٹیو مغربی دنیا کے پہلے فلسفی ہیں، جہنوں نے انسان کی تعلیم کو اس کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر خیال ظاہر کیا اور مزید ان کے شاگرد ارسطو نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ 17ویں صدی کے اواخر تک مغربی ممالک میں تعلیم کے میدان میں نفسیاتی حقائق کا استعمال اسی طرح ہوتا رہا 18ویں صدی عیسوی میں روسو نے اس میدان میں انقلابی قدم ضرور اٹھائے لیکن وہ بھی سائنسی شکل فراہم کرنے سے قاصر رہے، ان کے زمانے میں بھی نفسیات فلسفے کا صرف ایک عضو بنا رہا، اس کی شکل سائنسی نہیں تھی اور تعلیم کے میدان میں اس کے استعمال کا کوئی باضابطہ مطالعہ بھی شروع نہیں ہوا تھا جہاں تک تعلیم کے میدان میں نفسیاتی حقائق کے باضابطہ استعمال کی بات ہے یہ کام جرمنی کے پستالاذی نے شروع کیا اور ان کے شاگرد ہربارٹ (Herbart)اور فروبل(Froebel)نے اسے اور آگے بڑھایا لیکن یہ بھی اسے سائنسی شکل فراہم نہ کرسکے۔

نفسیات کو فلسفے سے الگ ایک آزاد شکل میں مطالعہ کرنے شروعات سب سے پہلے امریکہ کے ولیم جیمس (William James) نے کی ولیم جیمس نے 1880 میں اپنی کتاب پرنسپلس آف سائیکولوجی شائع کی۔ اس کتاب میں نفسیات کو ایک آزاد مضمون کے طور پر پیش کیا گیا اور ساتھ ہی نفسیاتی حقائق، اصولوں اور ضابطوں کو انسان کی تعلیم میں زور دیا گیا۔ صحیح معنوں میں نفسیات اور تعلیمی نفسیات کی شروعات ولیم جیمس نے کی اور اسی وقت گالٹن (Galton)نے شراکیت (associationism)پر اپنا نظریہ پیش کیا ان سب سے تعلیم کے میدان میں نفسیات کا باضابطہ استعمال شروع ہوا 1890 میں فرانس کے ماہر نفسیات الفریڈ بنیٹ (Alfred Benet)نے ذہانت پر تجربہ کیا اور 1905میں انہوں نے ذہانت کی پیمائش کوفروغ دیا۔ اور مزید اسی طرح ماہرنفسیات ای۔ایل تھارن(E.L thorndike )ڈائک نے اپنے اپنے تجربات کی بنیاد پر سیکھنے یعنی اکتساب کے اصولوں اور ضابطوں کا ایجاد کیا۔

یہاں سے تعلیمی نفسیات اور زیادہ منظم شکل اختیار کرنا شروع کرتی ہے اس کے بعد تو یکے بعد دیگر متعدد ماہرین نفسیات نے اس میدان میں کام کرنا شروع کیا، اس فہرست میں گیسٹالٹ ماہر نفسیات میکس وردیمر،کوہلر،کوفہ اور نفسی تجزیہ کار سگمنڈ فرائڈ کا نام سرفہرست ہے اسی پس منظر میں آج دور جدید میں تعلیمی نفسیات ایک منفرد آزاد مضمون کی شکل میں ترقی کرچکی ہے، اس کا ایک اپنا مطالعہ اور علمی میدان ہے مطالعے کا اپنا طریقہ ہے اور اپنا تحقیقی نظام ہے اتنا ہی نہیں بلکہ اس میدان میں مسلسل انسانی طرز زندگی پر تحقیقی عمل جاری ہے اور مسلسل نتیجے کے طور پر تعلیمی نفسیات میں مسلسل ترقی ہورہی ہے۔

تعلیمی نفسیات (Educational Psychology)
آج کے دور میں نفسیات کی سب سے اہم شاخ ہے۔ اسکے ذریعہ طلباء کی نفسیات پر بحث کیجاتی ہے، انکی ذہنی کیفیت یعنی ذہانت، کند ذہنی، نااہلی اور اس سے متعلق موضوعات پر بحث کیجاتی ہے۔ طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر نصاب کی تیاری اور نصابی کتابوں کی تیاری میں اس سے مدد لی جاتی ہے۔ یہ متعدد پیمائشی آلات اور آزمائش کے مختلف طریقوں کی مدد سے تدریسی طریقوں پر تحقیقات کرتی ہے۔

فلسفی و مفکر جون ڈیوی کے نزدیک تعلیم کیا ہے، ہر قسم کی تعلیم کی بنیاد اس وقت پڑتی ہے جب فرد اپنے نسلی گروہ کے اجتماعی شعور کا حصہ دار بنتا ہے، یہ عمل قریب پیدائش کے وقت سے ہی غیر شعوری طور پر شروع ہوجاتا ہے، یہی عمل فرد کی دماغی صلاحیتوں کی کی تشکیل کرتا ہے، فرد کے علم و آگہی میں اضافہ کرتا ہے، اس کی عادات و اطوار بناتا ہے، اس کے خیالات کی تربیت کرتا ہے اوراس کے جذبات و احساسات کی تہذیب کرتا ہے اس غیر شعوری تعلیم کے ذریعے فرد بتدریج اس علمی و اخلاقی سرمایہ میں اپنا حصہ بنانے کے قابل ہوجاتا ہے، جو بنی نوع انسان نے آج تک جمع کیا ہے گویا وہ تہذیب کے اس جمع شدہ سرمایہ کا وارث بن جاتا ہے، یہ تو ہوسکتا ہے کہ اس تعلیم کو کسی خاص انداز میں منظم کرلیا جائے یا اسے خاص رخ دے دیا جائے، لیکن انتہائی میکانکی اور رسمی تعلیم بھی اس عام روش سے انحراف نہیں کرسکتی جان ڈیونی مزید کہتا ہے صحیح تعلیم صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ بچہ جس سماجی ماحول میں پرورش پارہا ہے اس ماحول کے تقاضوں کو سمجھ کر ان کے حوالے سے اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاہے ان تقاضوں کے ذریعے سے تحریک دی جائے کہ وہ خود بھی اس سماجی اکائی کے ایک رکن کی حیثیت سے عمل کرے اور اپنے خلقی و جبلی جذبات و عمل کی تنگ ناہے سے باہر نکلے اور اس گروہ کی بھلائی کے حوالے سے اپنے وجود کا ادراک کرے۔

جان ڈیونی کی تعلیمی فلسفہ کے تناظر میں یہ کب ممکن ہوگا؟ ہم اکثر تعلیم، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا نام سنتے ہیں ہمارے ذہن میں اک دم علم و فن مہارت عقل شعور ادراک اور فہم آتا ہے، جو سراسر ایسا نہیں ہے یہ ایک بڑے قسم کی اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ دھوکہ دہی اور فریب ہے۔

پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم خود کس سماج میں رہ رہے ہیں؟ کونسا تعلیم ہمیں دیا جارہا ہے؟ کون دے رہا ہے؟ اور کیوں دے رہا ہے؟ ان چند بنیادی اور اہم سوالات پر غور کرنا بے حد ضروری ہے۔

آزاد قوموں اور ریاستوں کی تعلیم اور تعلیمی اداروں کو ذہن میں بٹھا کر کسی بھی قابض کی طرف سے دیئے گئے تعلیم اور تعلیمی اداروں کو بھی ایسا تصور کرنا احمقانہ سوچ ہوتا ہے۔

میرے کہنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ قابض ریاست کی تعلیم اور تعلیمی اداروں کو خیرآباد کہا جائے، ایسا بالکل غلط اور نقصاندہ ہے لیکن کم سے کم ذہن میں یہ بات و سوچ ضرور رکھنا تعلیم اور تعلیم ادارے ریاست کے کنٹرول میں ہیں لیکن میرا ذہن میرے کنٹرول میں ہونا چاہیئے، مجھے کیا حاصل کرنا ہے؟ کیا حاصل نہیں کرنا؟ کیا بننا ہے؟ کیا نہیں بننا ہے؟ جب یہ چیزیں ذہن میں نہیں ہونگے تو ہمیشہ قابض ریاست کی تعلیم اور تعلیمی ادارے پڑھے لکھے جاہل ریاستی نوکر مزدور رعایا اور سماجی حیوان پیدا کرینگے اور تعلیمی ادارے خود غرض و لالچی اور بزدل انسانوں کو تخلیق کرنے کا ذریعہ اور فیکٹری بن جائیں گے۔

فرانس کے مارکسی فلسفی و مفکر لوئی آلتو سے نے اپنا مشہور مقالہ، نظریہ اور حکومت کے نظریاتی آلات، شائع کیا، اس مقالے کو انگلستان کی اوپن یونیورسٹی نے اپنے کورس میں بھی شامل کرلیا اور تعلیمی حلقوں میں اس کا بہت اثر قبول کیا گیا آلتوسے انتہائی اہم نقطہ نظر میں کہتا ہے کہ تعلیم کے زریعے مروجہ نظریات کو ہی تقویت دی جاتی ہے اس نے کہا تعلیمی نظام نے جدید دور کے کلیساء کی شکل اختیار کر لی ہے، جس کا کام طبقاتی معاشرے کے نظریے اور خود طبقاتی معاشرے کی بقاء کے لیے کام کرنا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اساتذہ اور تعلیمی شعبوں میں کام کرنے والے دوسرے لوگوں نے اس نظریاتی آمریت کے دلالوں کا فریضہ سنبھال لیا ہے۔

اسی طرح سیموئیل اور ہربرٹ گٹس نے جنہیں نو مارکسی کہا جاسکتا ہے اپنی کتاب schooling in capitalist America میں اس خیال کا اظہار کیا کہ تعلیمی ڈھانچہ اور اس کی خصوصیت اجارہ دار سرمایہ داری کے مفادات کو آگے بڑھاتی ہیں یعنی وہ کارخانہ اور جدید کارپویشنوں کے تابع ہوتی ہیں۔

مظلوم عوام کی تعلیم و تدریس کے حوالے سے پرمغز اور قابل قدر تعلیمی تصور پیش کرنے والے مفکر و فلاسفر پاولوفریرے تعلیم کو دو تصور یا دو قسم میں واضح کرتا ہے، بنکنگ تعلیم اور آزادی بخش تعلیم پاولوفریرے کہتا ہے بنکنگ تعلیم طلباء کو بے حس کردیتی ہے اور تخلیقی قوت کو روک دیتی ہے اور آزادی بخش تعلیم حقیقت کو مسلسل بے نقاب کرنے کے پروسس میں رہتی ہے، اول الذکر شعور میں ڈوبنے کو قائم رکھنے کی کرتی ہے جب کہ بعدالذکر شعور سے ابھرنے اور حقیقت میں تنقیدی مداخلت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

مزید اگر ہم فریرے کے خیالات کی روشنی میں بنکنگ تعلیم اور آزادی بخش تعلیم کی تصور اور فرق سے ان ہی کے خیالات سے استفادہ کریں تو بہتر ہوگا۔

وہ کہتا ہے وہ انقلابی معاشرہ جو بنکنگ نظریہ تعلیم کی مشق کرتا ہے وہ یا گمراہ ہوتا ہے یا اس کا انسانوں پر اعتماد نہیں ہوتا اسی لیئے وہ ہلکے سے ردعمل سے خوف زدہ ہوجاتا ہے اور آزادی بخش تعلیم علم و گیان کے عمل پر مشتمل ہوتا ہے، نہ کہ معلومات کی منتقلی پر یہ سیکھنے کی ایسی صورت حال ہے جس میں قابل فہم شے شناسا کرداروں، ایک طرف استاد اور دوسری طرف شاگردوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتی ہے لہٰذا آزادی بخش تعلیم کی مشق سے پہلے استاد، طالب علم تضاد کے حل کا مطالبہ کرتی ہے مکالماتی تعلقات۔

اسی قابل گیان شے کے ادراک کے لیے علم حاصل کرنے کے لیے دونوں کرداروں کا تعاون نا گزیر ہے ورنہ یہ نا ممکن ہوتا ہے۔

بنکنگ تعلیم مکالمے کے خلاف مزاحمت کرتی ہے جب کہ آزادی بخش تعلیم مکالمے کو علم کے عمل کے لیے ناگزیر سمجھتی اور حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے، بنکنگ تعلیم طلباء کو ایسی اشیاء فرض کرتی ہے جن کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ آزادی بخش طریقہ تدریس ان کو تنقیدی سوچ بچار کرنے والا بناتا ہے بنکنگ تعلیم تخلیق کو روکتی ہے اور شعور کو دنیا سے الگ کرتے ہوئے شعور کی ارادیت کو سدھاتی ہے۔ اور آزادی بخش تعلیم اپنی بنیاد تخلیق پر رکھتی ہے اور سچے غور و فکر اور عمل کو ابھارتی ہے بنکنگ نظریہ تعلیم بلواسطہ یا بلاواسطہ لوگوں کے اپنی صورت حال کے بارے میں تقدیر پرستی کے ادراک کو مضبوطی کرتی ہے آزادی بخش تعلیم اس صورت حال کو ان کے سامنے ایک مسئلے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بنکنگ طریقہ کار کا انسان دوستی کا فلسفہ اپنی کوششوں پر نقاب چڑھائے رکھتا ہے تاکہ انسانوں کو خودکار مشینوں میں تبدیل کیا جاسکے جو مکمل انسان بننے کے وجویاتی خدائی وصف کی بنیادی نفی ہے۔

جب ہم مختصر بیان کردہ پاولو فریرے کے خیالات و نفسیاتی اور فلسفی تعلیمی بنیاد اور حقائق کو ایک ساتھ گوند کر کچھ بنیادی سوال ذہن پر ابھرتے ہیں جو انتہائی سادہ سیدھے بھی ہیں اور پیچیدہ بھی۔ ہم اگر تعلیم کی بات اور چرچا کرتے ہیں تو کس تعلیم کی کونسے تعلیم کی؟ تعلیم سے قومیں ترقی کرتے ہیں؟ کونسے تعلیم سے، کون سا قوم ترقی یافتہ ہوتا ہے؟

بنکنگ طریقہ تعلیم حاصل کرکے لیکچرار، پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر، وکیل وغیرہ بن کر دن رات ڈیوٹی پر معمور صرف پیسہ اور مراعات حاصل کرنا خود کو اپنی خاندان کو آباد کرنا یہ تعلیم قوم کی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے؟

آج تک دنیا میں ایک ہی مثال موجود ہے کہ کسی قابض ظالم جابر حاکم اور استعماری قوت نے کسی مظلوم غلام اور زیردست قوم کو حقیقی تعلیم دی ہے؟ اگر پھر بھی تعلیم اور تعلیمی اداروں کے نام اور شکل پر جو بھی عمارت تعمیر کرچکے ہیں، وہ بھی دراصل ریاست کے نوکر ملازم پیدا کرتے ہیں، اور نوکر کا واسطہ اور احساسات کبھی بھی اپنی قوم اور سرزمین سے نہیں ہوتا ہے، وہ ہمیشہ ڈرپوک ہوتے ہیں اپنی زندگی اور نوکری کو بچانے کی خاطر اگر ان میں کچھ بھی بے غرض اور بے خوف ہوتے ہیں قوم اور سرزمین کے ساتھ مجموعی احساس کے مالک ہوتے ہیں، پھر وہ بلواسطہ یا بلاواسطہ ضرور کسی نہ کسی جگہ سے آزادی بخش تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔

تعلیم کا مقصد خودشناسی، تنقیدی سوچ، جستجو ،مکالمے پر عبور و مہارت اور ادراک جب یہ چند اور اہم چیزیں انسان میں موجود ہونگے وہ انسان نماء حیوان نہیں حقیقی انسان ہی ہوگا، جب انسان ہوگا اسے اپنی قوم انسانیت سرزمین، وسائل، اقدار، زبان، ثقافت، تاریخ اور حیثیت کا علم و شعور ہوگا۔ جب علم و عمل اور شعور ایک ساتھ ہونگے تو پھر خودغرضی لالچ اور خوف انسان کے دماغی پر حاوی نہیں بلکہ ایک طرف ہوگا۔ پھر جاکر انسان اپنی قوم اور سرزمین کے خاطر بلاخوف و خطر اور غرض اپنا کردار ادا کریگا۔

میں نے خود چند دیگر ہم خیال دوستوں کے ساتھ 2004 میں بی ایس او متحدہ کے کونسل سیشن میں تجویز پیش کی کہ بی ایس او کی ممبر شپ کے لیے کسی بلوچ کا ہونا ضروری ہے، یہ ضروری نہیں کہ اس کا پاکستانی اسکول کالج اور یورنیورسٹی سے کوئی تعلق ہو لیکن یہ تجویز بھی روایتی سوچ اور روایتی طرز سیاست کی بھینٹ چڑھ کر قابل قبول نہیں ہوا، آیا اگر کوئی بلوچ نوجوان اپنی معاشی مجبوری یا دور دراذ علاقوں میں سکول نہ ہونے کی وجہ سے پڑھ نہیں سکتا ہے، پھر وہ بی ایس او کا کیوں ممبر بن نہیں سکتا ہے؟ کیا بی ایس او کا آئین پاکستانی تعلیم نظام یا اسکلولنگ سسٹم کا پابند ہے؟ کیا اسٹوڈنٹس کا مقصد اور معیار پاکستانی اسکول اور کالج سے صرف وابستگی ہے؟ دوسرا کیوں اور کس لیے بی ایس او ہو یا ہماری دیگر تربیتی ادارے لوگوں کی تربیت ایک عمر کے بعد شروع کرتے ہیں، تقریبا 14 اور 15 سال کے بعد یعنی انڈر میٹرک یا میٹرک کے بعد کیا سیکھنے کا عمل اس عمر سے شروع ہوتا ہے؟ اس سے پہلے ممکن نہیں ہے؟ تو یہ خود تعلیمی نفسیات کے منافی ہے کیونکہ بچہ ماں کی گود سے سیکھنا شروع کرتا ہے تو کیونکہ وہ 15 یا 16 سال میں جب پہنچ جاتا ہے پھر اس پھر ہم توجہ دیتے ہیں، اگر ایسا نہیں ہے تو بی ایس او اور دیگر کے پاس کم عمر بلوچوں کے لیے ذہنی اور تعلیمی تربیت کے لیے کیا اور کیسا واضح پروگرام ہے؟

اگر بی ایس او آج بھی عمر کی قید، پاکستانی تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کے قید سے آزاد ہوکر بحیثیت ہر بلوچ بچے، جوان اور نوجوان کی ذہنی و فکری سیاسی اور تعلیمی تربیت کے لیے واضح پروگرام اور تعلیمی نظام متعارف کروادے جو فلسفے، نفسیات، فن و ادب اور تاریخ پر مشتمل ہو یعنی بی ایس او کو خود ایک اسکول کالج اور یونیورسٹی ہونا چاہیئے، بی ایس او کے ممبر کا معیار کسی پاکستانی تعلیمی ادارے سے وابستگی نہیں ہونا چاہیئے۔ میں آخر میں اپنی باتوں کو پاولوفریرے کی اس بات پر ختم کرتا ہوں۔

آزادی دلانے والی تعلیم کی تکمیل کے لیے سیاسی قوت لازمی ہوتا ہے جب مظلوموں کے پاس قوت نہیں ہوتی تو انقلاب سے پہلے مظلوموں کی تدریسی سائنسی پر عمل کرنا کیسے ممکن ہوسکتا؟ وہ مزید کہتا ہے منظم تعلیم (systematic education)میں جسے صرف سیاسی قوت ہی بدل سکتی ہے اور ایسا تعلیمی منصوبہ بنایا جاسکتا ہے جس پر مظلوموں کے ساتھ ان کو منظم کرنے کے پروسس میں عمل کیا جاسکتا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔