ترکِ خدا، خوفِ خفیہ
تحریر۔ پیادہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ریاست پاکستان سے تعلق رکھنے والے تمام دعویدار، علماء و مولوی جو اپنے علم کی بنیاد جانبداری اور چند مقاصد کیلئے وقف کرچکے ہیں کہ کہیں ان کے منہ سے نکلنے والا کوئی بھی شبد پاکستانی اسلام کے منافی نہ ہو، وہ خوف جو دنیا بھرکے مسلمانوں کی طرح عالمی مذہب اسلام اور اللہ تعالیٰ کے عبادت کیلئے ہونا چاہیئے، ظلم کے خلاف اور سچائی کیلے صراط مستقیم کیلئے ہونا چاہیئے۔
پاکستانی علماء اور مولویوں کے اندر وہ خوف خفیہ اداروں کیلئے محدود ہوچکا ہے، پاکستانی علماء انہیں اس لیئے کہتا ہوں کہ وہ ایک ایسے فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، جنکا ایجنڈا صرف پیٹ بھرنے اور حلوہ چاٹنے تک محدود ہے، یہاں پیٹ بھرنے سے مراد پاکستانی مذہب کو تسلیم کرنا، اس کے دو فرائض پر عمل پیرا ہونا، مطلب یہ کہ خفیہ دو ایجنسیوں، وحشی آئی ایس آئی اور درندہ ایم آئی کے سرپرستی میں دین کی ترغیب دینا۔ بخاری شریف کی تعلیم کو پاکستانی لہجے میں بیان کرنا جہاں افغانستان یا ارد گرد کے معصوم لوگوں کو پاکستانی اسلام کے بنیاد پر غدار، گستاخ اور منکر قرار دے کر اپنے پڑوسیوں پر جہاد کے نام پر محض دہشت پھیلانا ہے۔
بلوچستان کے تمام لاپتہ افراد بھی پاکستانی اسلام کے تحت گستاخ اور متکبر ہیں، جسے پاکستانی ملاوں نے اپنے پاکستانی دین کی پاسداری کرتے ہوئے اس معاملے کو دفن کر چکے ہیں، اس مذہب میں سب سے بڑا گنہگار وہ ہے، جو اپنے حقوق کیلئے جرات مندانہ اقدام کی گستاخی کرتا ہے اور سب سے بڑا منکر وہ ہے، جو غلامی کو قطعاً قبول نہیں کرتا ہے، وہ پاکستانی اسلام میں ایسے تمام افراد واجب المسخ قرار دے دیئے جاتے ہیں، جنکو مختلف عقوبت خانوں میں یا ویرانوں میں پھینکنا، پاکستانی اسلام میں عزاب عظیم دینا ہے۔
پاکستانی ملاؤں کی حلوے چاٹنے سے مراد بلوچستان کے ساحل وسائل پر پاکستانی کلمہ گو ہوکر ٹوٹ پڑنا، دنیابھر کے مسلمانوں کے خدا کو نعوذ باللہ ترک کرکے خفیہ اداروں کے پیرو ں کے آگے سجدہ ریز ہوکر انکے تلوں کو چاٹنا، پاکستانی پارلیمنٹ کے اندر مفادوں کا بے مقصد ڈھنڈورا پیٹنا، ناموس رسالت کے خلاف احتجاج اور دھرنوں کو پاکستانی خدا کے حکم پر منسوخ کردینا اور ردالفساد، ضرب عزب جیسے جنگوں کو غزوہ خندق اور غزوہ عہد سے زیادہ ترجیح دینے کو تسلیم کرنا ہے۔ جہاں پاکستانی براق کے زریعے دنیابھر کے مسلمانوں پر حملہ آور ہونا اور دہشت گردی کو پاکستانی جہاد کا نام دینا۔
ایسے علماء کو علماء نہیں بلکہ ہانکے ہوئے جانور کہلانا چاہیئے، جنکی لگام خفیہ اداروں کے ہاتھ میں کسے ہوئے ہیں (کہیں وہ حقیقی اسلام کی پاسداری نہ کریں) جنہیں جو فتویٰ دیا جاتا ہے، اسے ہی ورد بنالیتے ہیں۔
کیا یہ تمام علماء نبی پاک( ص) کے احکامات بھول چکے ہیں کہ ظلم کے خلاف بات کرنے سے کتراتے ہیں؟ کیا ان پاکستانی علماء نے حضرت عمر فاروق( رض) کے دور خلافت کے بارے میں کچھ نہیں پڑھا ہے؟ اگر یہ کچھ علم حاصل کرنے والے علماء ہوتے تو آج تک ان کے سرشرم سے نہیں جھک جاتے؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جو پہلے پاکستانی فوج میں بھرتی ہونے کیلئے ننگا ہوکر گھس جاتے ہیں، بعد میں ان میں سے کچھ کچرا اٹھانے والے ابدال بن کر دنیا کے سامنے گندگی پھیلاتے ہیں اور کچھ نام نہاد مجاھد بن کر پاکستانی دین کے آگے کٹھ پتلی بن کر پھرتے ہیں صرف اپنے مفاد کیلئے۔
اگر کوئی ملا جمعہ نماز کے خطبے میں یہ تقریر کرسکتا ہے کہ عورت کا گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، تو کیا آج تک کسی مولوی نے یا کسی پی ایچ ڈی کیئے ہوئے عالم دین نے ہماری بہنوں سے آکر کوئٹہ میں یہ پوچھا ہے کہ آپ گھر سے نکلے کیوں ہو؟ کیا آپ کا کوئی بھائی، باپ یا شوہر کی شکل میں گھر میں موجود کوئی مرد نہیں ہے؟ اتنا کسی نے کبھی زحمت کی ہے پوچھنے کی؟
ان علماء کو حضور (ص) کا وہ واقعہ یاد نہیں جب حضور پاک (ص) گلی سے گذرتے تو ایک بوڑھی عورت آپ پر کچرا پھنکتا اور ایک دن جب وہ بوڑھی عورت بیمار ہوئی، تو آپ ان کے گھر تشریف لے گئے تو اس عورت نے آپ کی اس خصوصیت اور انسانیت پسندی کو دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔
ہماری ماں بہنوں نے تو کوئی قصور نہیں کیا، صرف اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے ہوئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، یہ واضح بات ہے کہ اس دنیا میں ایسے علماء جنکو یہ خبر بھی ہے کہ اس نام نہاد جمہوری نظام کا آئین و قانون غلط ہے، یہ جاننے کے باوجود بھی تمام پاکستانی علماء چپ ہیں، اس دنیا میں تو انکا اگر کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا تو آخرت میں ایسے علماء سے اللہ تعالیٰ ضرور حساب کتاب فرمائیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔