ترکی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار رکھنے کی قیمت پر سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے۔
ترکی کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ خشوگی کے قتل کے باوجود امریکہ سعودی عرب کا ساتھ دے گا۔
منگل کو وائٹ ہاؤس سے جاری ایک تحریری بیان میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ خشوگی کا قتل ایک خوف ناک جرم تھا لیکن سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات انتہائی اہم ہیں اور ملکی مفادات کے پیشِ نظر امریکہ سعودی عرب کا ساتھ دیتا رہے گا۔
امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اس قتل کا علم ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے لاعلم ہوں۔ شاید اس قتل کے تمام حقائق کبھی سامنے نہ آسکیں۔
امریکی صدر کے اس بیان کے ردِ عمل میں ترک وزیرِ خارجہ میولت کاوو سوغلو نے کہا ہے کہ تجارتی تعلقات برقرار رکھنے کی غرض سے خشوگی کے قتل پر پردہ ڈالنے کی کوششیں نہیں ہونی چاہئیں۔
منگل کی شب واشنگٹن ڈی سی میں ترک صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیرِ خارجہ نے الزام عائد کیا کہ سعودی حکومت خشوگی کے قتل کی تحقیقات میں اتنا تعاون نہیں کر رہی ہے جتنا اسے کرنا چاہیے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ کہ اگر ریاض اور انقرہ کے درمیان اس معاملے پر کوئی ڈیڈ لاک آیا تو ترک حکومت خشوگی کے قتل کی بین الاقوامی تحقیقات کے لیے بھی اقدامات کرسکتی ہے۔
ترک وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ایک شخص قتل ہوا ہے اور یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیے بغیر اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ چوںکہ ہماری تجارت بڑھے گی لہذا اس معاملے پر مٹی ڈال دو اور اسے نظر انداز کردو۔
ترک وزیرِ خارجہ ان دنوں امریکہ کے دورے پر واشنگٹن ڈی سی میں موجود ہیں جہاں انہوں نے منگل کو اپنے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو سے ملاقات کی تھی۔
کئی امریکی ارکانِ کانگریس نے بھی صدر ٹرمپ سے خشوگی کے قتل پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سرکردہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ ارکان ، سینیٹر باب کورکر اور سینیٹر باب میننڈیز ، نے منگل کی شام وائٹ ہاؤس کو ایک خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر اس معاملے کی باضابطہ تحقیقات کرائیں کہ آیا خشوگی کے قتل میں سعودی ولی عہد ملوث تھے یا نہیں۔
دونوں سینیٹرز نے اپنے خط میں کہا ہے کہ یہ تحقیقات 2016ء میں منظور کیے جانے والے گلوبل میگنسکی ایکٹ کی روشنی میں کرائی جائیں جس کے تحت امریکی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا بدعنوانیوں پر غیر ملکیوں کے خلاف بھی پابندیاں عائد کرسکتی ہے۔
ریاست کنٹکی سے منتخب ری پبلکن سینیٹر رینڈ پال نے امریکی صدر کے بیان کے ردِ عمل میں کہا ہے کہ سعودی عرب کے سامنے کھڑے نہ ہونا کمزوری کی علامت ہے۔
صدر ٹرمپ کے حامی سمجھے جانے والے جنوبی کیرولائنا سے منتخب ری پبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے بھی صدر کے بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
سینیٹر گراہم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کو کسی صورت بین الاقوامی اسٹیج پر “اخلاقی بنیادوں پر اپنایا گیا موقف” ترک نہیں کرنا چاہیے۔
ڈیموکریٹ ارکانِ کانگریس بھی خشوگی کے قتل کے معاملے پر ٹرمپ حکومت سے سعودی عرب کے خلاف سخت ترین موقف اپنانے اور تادیبی اقدامات کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں۔