بلوچ نسل کشی، مکران کی تہذیب اور ڈاکٹرمالک؟ – برزکوہی

588

بلوچ نسل کشی، مکران کی تہذیب اور ڈاکٹرمالک؟

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

پنجابی مقتدرہ قوتوں کا بندہ خاص اور پاکستانی فوج کی بی ٹیم نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ گذشتہ روز مکران کے علاقے پسنی میں پارٹی کارکنوں سے کہہ رہے تھے کہ گوادر کو لسبیلہ سے ملانا مکران کی تہذیبی تاریخ کو مٹانے کی سازش ہے۔ نیشنل پارٹی اٹھارویں ترمیم کو واپس کرنے کی کوشش کے خلاف ہے۔ دفاع، کرنسی اور خارجہ امور کے علاوہ تمام اختیارات صوبوں کو دے کر صوبوں کو خود مختار بنایا جائے۔ نیشنل پارٹی جمہوری طریقے سے بلوچ قوم کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی جنگ لڑرہی ہے، بلوچ ساحل اور وسائل کے تحفظ کا دفاع کریں گے۔

ڈاکٹر مالک صاحب کی1988 کو شہید وطن فدا احمد بلوچ کی شہادت کے بعد آج تک بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف پنجابی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر بے شمار سیاہ اور بدنما کرتوتوں اور کارناموں کو ایک طرف رکھ کر 2013 سے لیکر 2015 تک اپنے ڈھائی سالہ وزارتِ اعلیٰ کے دوران اپنی ٹیم اور بلوچ کش ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے(جس کی سربراہی سردار اسلم بزنجو، شفیق مینگل، امام بیل، شامیر بزنجو، خالد بزنجو وغیرہ کررہے تھے) سے جس طرح بلوچوں کی نسل کشی کی، آج وہ پوری قوم اور دنیا کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔

مبادا ماضی کے آج ڈاکٹر مالک بلوچ انتہائی مکارانہ و فنکارانہ انداز اور چرب زبانی کے ساتھ اپنا ہاتھ اور منہ بلوچ شہیدوں کے خون سے دھو کر پھر بھی بلوچ قوم کے سامنے مکران کی تہذیبی تاریخ کے مٹنے کا رونا شروع کرچکا ہے، پاکستان فوج کے ساتھ ملکر نیشنل پارٹی مکران سے لیکر کاہان تک پورے بلوچ قوم کے خلاف ایپکس کمیٹی میں بلوچ نسل کشی کی فیصلے کی ناصرف تائید کرتا رہا ہے بلکہ مکمل ساتھ اور مدد دینے کی بھرپور یقین دہانی اور بعد میں عملی جامعہ پہننانے میں بھی پیش پیش رہا ہے۔ بلوچ قوم کو فصل کی طرح کاٹنا اور بلوچ قوم کی ایک نسل کو نسل کشی کا شکار کرکے ختم کرنا دوسری طرف لاشوں پر کھڑے ہوکر اسی قوم اور نسل کی تہذیب و تاریخ کی بات کرنا کیا عجیب مضحکہ خیزی نہیں ہے؟

ڈاکٹر صاحب خود تہذیب کیا ہے؟ اور تہذیبی تاریخ کیا ہے؟ اگر آپ کے دل و دماغ میں اس وقت پنجابی قوم کے دیئے گئے مراعات اور لالچ سوار نہ ہوتے، آپ اندھے و بہرتے نہ ہوتے تو آپ بہتر انداز میں جانتے ہو، جب خود بلوچ قوم اور بلوچ معاشرہ سرے سے تباہی اور بربادی کی دھانے پر ہو اور بلوچ قومی بقاء اور معاشرہ فناء کی طرف محو سفر ہو اور اس کار خیر اور جرم میں آپ اور آپ کی ٹیم شانہ بشانہ ہو پھر تہذیب کی فکر مند رہنا کس کو بے وقوف اور احمق بنانے کی کوشش ہے؟

معاشرتی ترتیب و طرزعمل تہذیب ہوتا ہے، تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور فکر و احساس کا طریقہ کار اور آئینہ دار ہوتا ہے، زبان، آلات و اوزار، پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے، رہن سہن، اخلاق و عادات، رسم و رواج، روایات، علم و ادب، فلسفہ، حکمت، فنونِ لطیفہ، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں۔

فلسفی ول ڈیورانٹ کے نذدیک بھی تہذیب وہ معاشرتی ترتیب ہے، جو ثقافتی، تخلیق کو فروغ دیتا ہے، چار عناصر ملکر تہذیب کو مشتکل کردیتی ہیں، معاشی بہم رسانی، سیاسی تنظیم، اخلاقی روایات اور علم و فن کی جستجو تہذیبی ابتری اور بدنظمی کے خاتمے سے شروع ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مالک صاحب پورے بلوچستان میں خاص کر مکران و گوادر میں لاکھوں کی تعداد میں چینی، پنجابی، بہاری، مہاجر اور دیگر غیر اقوام کی آباد کاری سے بلوچ قوم کو کالونائز کروانا، بلوچوں کی زمینیں ان سے زبرستی چھیننا، جیٹ طیاروں، کوبرا ہیلی کاپٹروں، بمبارمنٹ اور فوجی کاروائی کے ذریعے بلوچوں کی نسل کشی کرنا، انھیں ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ کرنا، پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پیھنکنا یا اجتماعی قبروں میں دفنانا ساتھ ساتھ بلوچ تعلیم یافتہ طبقے، طلباء، شاعروں، ادباء، گلوکاروں، دانشوروں، مفکروں، ڈاکٹروں، صحافیوں، وکلاء، سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کو بے دردی سے شہید کروانا اور تعلیمی اداروں کو فوجی چھاونی اور ٹارچر سیل بنانا بلوچوں کی تاریخی جغرافیائی حیثیت کو غیر فطری ریاست پاکستان کے ساتھ ضم کرنے کی مزید استحکام کی اقدامات اٹھانا وغیرہ ان تمام کے تمام تاریخی سیاہ کارناموں کرتوں اور جرائم میں مالک صاحب آپ اور آپ کے کارندے برابر کے شریک ہیں، ڈاکٹر صاحب خضدار کے مقام توتک میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اجتماعی قبریں، جو آپ کے بندہ خاص اسلم بزنجو اور اس کے جگری دوست شفیق مینگل اور پاکستانی فوج کے کارنامے ہیں، آج ان لاشوں پر جناب آپ کھڑے ہوکر پھر بھی تہذیب کی بات کرتے ہو؟

قوم زندہ ہوگا، قومی بقاء محفوظ ہوگا۔ دہشت اور خوف کے ماحول کے بغیر ہمیشہ جستجو اور تخلیقی صلاحیتں فروغ پائینگے پھر جاکر معاشرے کی ترتیب یعنی تہذیب زندہ ہوگا اور اس کی تاریخ زندہ ہوگی مرمٹنے اور گمشدگی سے محفوظ ہوگا، جناب مالک صاحب۔

فلسفی ول ڈیورنٹ گم شدہ تہذیبوں کے بارے میں کہتا ہے، تہذیب یافتہ قوموں کی تاریخ پر پہنچتے ہوئے ذہن نشین کرنی ہوگی کہ ہم ہر تہذیب کا نہ صرف ایک حصہ منتخب کررہے ہوں گے بلکہ ان قلیل تہذیبوں کا تذکرہ کر رہے ہوں گے جو زمین پر زندہ رہینگے۔ ہم پوری تاریخ میں جاری و ساری اساطیر کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں، وہ تہذیب جو کبھی بہت بڑی تھیں، فطرت کی کسی آفت یا جنگ کی وجہ سے تباہ ہوگئیں۔ اور ان کا کچھ باقی نہیں بچا کریٹ ،سمیریا اور یوکٹان کی کھدائی سے اس بات کی اندازہ ہوسکتا ہے۔

تو جناب ڈاکٹر مالک صاحب مکران کی تہذہیبی تاریخ کے مٹنے کے لیے مگر مچھ کی طرح آنسو بہانے سے پہلے یہ سوچیں مٹنا، آفت کوئی فطری آفت نہیں ہے بلکہ سوچی سمجھی انسانی آفت ہے اور ایک مسلط کردہ جنگ ہے اور اس جنگ اور آفت میں آپ جناب اور آپ کے پارٹی کے کارندے برابر شریک تھے اور شریک ہیں۔

افسوس اور نفرت اس بات کی ہے آپ جناب ابھی تک بلوچ قوم کو اتنا سادہ اور بے وقوف اس دور کی طرح سمجھتے ہو، جب آپ اور آپ کے ٹولہ ڈاکٹران سردار اخترمینگل سے اختلاف رکھ کے الگ ہوگئے، پنجابی کی ایماء پر غیر ضروری مڈل کلاس کا سلوگن دیکر بلوچ قوم کو بے وقوف بنا کر اختر مینگل سے ذاتی ضد اور انتقام کے بدلے اپنے سوچ کی تسکین کے خاطر بلوچ قوم کو تقسیم در تقسیم کیا اورآپ لوگوں کا یہ بے معنی سلوگن اس وقت دم توڑ گیا، آپ لوگ بی این ڈی پی کی شکل میں خفیہ ادراوں کی ایماء پر انضمام کرگیے، آج پھر آپ پاکستانی اٹھارویں ترمیمم اور صوبوں کے اختیار کا سلوگن اور مکران کی تہذیب کو بچانے کی خاطر سلوگن پر گزارہ کررہے ہو، دوسری طرف آپ اور آپ کی پارٹی ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کی شکل میں صرف بلوچ قومی تہذیب نہیں بلکہ بلوچ قوم کو مسخ کررہا ہے۔ جب خود بلوچ قوم، بلوچ قومی شناخت اور بقاء نسل کشی اور کالونائزڈ کی شکل میں فناء ہوگا تو پھر بلوچ قومی تہذیب یا تہذیبی تاریخ کے لیے کیا بچے گا؟

فلسفی ارسطو کے خیال میں یہ بات یقینی طور پر امکانی ہے کہ بہت ساری تہذیبیں آئے، انہوں نے ایجادیں اور عیاشیاں کئیں، تباہ ہوئے، آج انسانی یاداشت سے مٹ گئیں۔

آج سے نہیں بلکہ 70 سال سے قابض ریاست بلوچوں کی نسل کشی کے ساتھ بلوچوں کی 11 ہزار سالا تہذیب کو ملیا میٹ کررہا ہے اور جوانی سے لیکر بڑھاپے تک قابض کے لے پالک بن کر مالک کی شکل میں قابض پاکستان کی اس سوجی سمجھی منصوبے میں آپ تو براہے راست شامل ہیں۔

آج بلوچ قوم اور بلوچ سماج آپ لوگوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں بچا ہے، صرف وہ لوگ آپ لوگوں کے ساتھ ہیں، جو علم و شعور سے نابلد ہیں، دوسرا وہ گروہ ہے، جن کے ذاتی مفاد اور غرض آپ اور ریاست کے ساتھ وابستہ ہیں۔

آپ اور آپ کی ٹیم تاریخ اور مورخ کے بے رحم حساب سے کسی بھی صورت میں محفوظ نہیں ہونگے، یہ بے بنیاد سلوگن اب آپ کے درد کا دوا اور مدواہ نہیں بن سکتے ہیں۔

آج یخہ بستہ شال پریس کلب یا ہر بلوچ کے گھر و گدان اور چھونپڑی سے ماں بہنوں اور بیواوں کے خون کے آنسووں اور چیخ و پکار کی ذمہ دار قابض ریاست پاکستانی فوج اور آپ اور آپ کی ٹیم ہے۔

صرف وہ بلوچ جو لاشعوری اور سادگی کی بنیاد پر آج بھی ریاستی ڈیٹھ اسکواڈ، نیشل پارٹی سے وابستہ ہیں وہ ضرور سوچ لیں اور اپنا وابستگی مکمل ختم کردیں تاکہ وہ تاریخ کی بدنامی سے بچ جائیں۔ کیونکہ حالیہ پاکستانی الیکشن میں نیشنل پارٹی اور ڈاکٹر مالک کا بندہ خاص سردار اسلم بزنجو اور اس کے بیٹے شامیر بزنجو کا شفیق مینگل کے ساتھ جوش و خروش اور خلوص کے ساتھ شانہ بشانہ بلوچ نسل کشی اور توتک واقعے میں ملوث ہونے کا واضح ثبوت ہے تو ایسے بلوچ دشمن قوتوں کے ساتھ ہمسفر اور وابستہ ہونا خود بخود تاریخی جرم کا مرتکب ہونا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔