بلوچ قومی حساسیت، عصبیت یا حقیقت
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
مجھ جیسے ادنیٰ سیاسی کارکن اور سیاست کے طالب علم کو اتنی سوجھ و بوجھ اور ادراک شاید نہیں کہ میں عالمی سطح پر کھیل کھیلنے والے کھلاڑیوں اور گیم چینجر قوتوں کو صحیح طریقے سے سمجھ سکوں اور کوئی رائے قائم کرسکوں کہ اس سارے عالمی کھیل میں میری قوم بلوچ اور میرا سرزمین بلوچستان کہاں پر کھڑا ہے، کس کس کے اور کن کن کے نظروں میں کیسا نظر آرہا ہے؟ البتہ ہرپیش آنے والا واقعہ جب رونما ہوتا ہے، تو قومی حساسیت، عصبیت یا حقیقت کے بنیاد پر ان واقعات کے بعد فوراً مجھے بلوچ اور بلوچستان نظر آتا ہے اور خاص کر بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد سامنے نظر آتا ہے۔
افغان طالبان سربراہ فضل اللہ کی ہلاکت، پاکستانی جیل سے طالبان رہنما ملابرادر وغیرہ کا رہائی، طالبان امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات، جنگ بندی اور جنگی تصفیے کی بازگشت افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانا، جنرل رازق اچکزئی سمیت اس کے دیگر ہم خیال عہدیداروں اور افسروں کی ایک تسلسل اور منصوبہ بندی کے ساتھ شہادت کے واقعات، سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو 12 ارب ڈالر کی امداد، امریکہ کی پیٹرو ڈالر جنگ، اسرائیلی وزیر اعظم اور وفد کی چوری چھپے پاکستان کا دورہ، سعودی عرب کا براہِ راست سی پیک اور گوادر میں آئل ریفارمری لگانے پر رضامندی اور مذہبی شدت پسند سنی تنظیم جیش العدل کی جانب سے درجنوں ایرانی فورسز کا اغواء اور اپنا قوت ظاہر کرنا، ترکی کے شہر استبول میں مشہور و معروف سعود خاندان سے تعلق رکھنے سینئر صحافی خاشقجی کی سعودی سفارت خانہ میں بے رحم انداذ میں قتل اور پاکستان کے درالحکومت اسلام آباد پنڈی میں اپنے گھر اور اپنے ہی بیڈ پر سوئے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے سوجانے والی آئی ایس آئی کا اہم مہرہ یعنی فادر آف طالبان مولانا سمیع الحق کا چاقوؤں سے قتل، ایسا گمان ہوتا ہے سب کے تانے بانے اور کڑیاں سانپ کی طرح ٹیڑے میڑے ہوکر آخرکار مکمل سیدھا ہوکر ایک ہی بل میں جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس سانپ کے بِل یا بِلوں میں بلوچ، بلوچستان اور بلوچ قومی جدوجہد برائے قومی آزادی کے لیئے کیا پک رہا ہے؟ جغرافیائی، معاشی، عسکری اور سیاسی حوالے سے بلوچستان کا پوزیشن، اہمیت اور افادیت کہاں پر رکھا ہوا؟ پہلے نمبر، دوسرے نمبر، تیسرے نمبر یا پھر زیرو پر؟ مستقبل میں بلوچ قومی بقاء اور تشخص نفع میں ہوگا یا نقصان میں؟
ہوائی اور سطحی انداز میں تجزیہ، بھڑک بازی، خوش فہمی، غلط فہمی، خدشات تحفظات اور پریشانیوں سے ہٹ کر کس کے پاس صحیح اور معتبر تجزیہ اور جانکاری ہے کہ بلوچ اور بلوچستان کے حوالے سے گیمبلر اور گیم چینجروں کے دماغوں میں کیا چل رہا ہے؟ کیا سوچ رہے ہیں؟ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں؟ اور آگے چل کر کیا کرینگے اور کیا نہیں کرینگے؟
سب سے اہم سوالات ہیں، اگر ان سوالات میں سوچ و بچار، غور وفکر سے لاتعلقی، نابلدی اور بیگانگی کی سوچ اور نظرانداز والی پالیسی اور رویہ کارفرما ہیں تو پھر علم و شعور اور ادراک کی بنیادوں پر جدوجہد کی ترندوتیز دعویں کیسے اور کس بات کی؟ اور علم و شعور اور ادراک برائے جہدوجہد کا اصل معنی و مفہوم اور معیار کیا ہے؟
کیا علم و شعور اور ادراک کے بغیر آج تک دنیا میں کوئی بھی ایک ایسا تحریک یا جدوجہد کامیاب ہوچکا ہے یا کامیاب ہوگا؟ کبھی کبھار سطحی پن، طفلانہ، غیرسنجیدہ اور روایتی طرز سے سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کے اندازِ فکر اور طرز عمل کو دیکھ کر یا محسوس کرکے کہیں خدشات، تحفظات، سوالات اور خطرات کا طوفان ذہن پر برپا ہوتا ہے کہ خواب غفلت بے حسی اور لاپرواہی میں خدا نہ کرے بلوچ قوم کی ایک بار پھر بہترین قسمت اور بہترین مقدر کے موقع ہاتھ سے نا کھو دے۔
حالانکہ آج بھی بلوچ قوم، خاص کر پرعزم بلوچ نوجوان اپنا سرہتیلی پر رکھ کر اپنے لہو سے بلوچ قوم اور بلوچ گل زمین کی حفاظت اور قومی آزادی کو حاصل کرنے کے اصول کی خاطر کمربستہ ہیں، جو ایک پرامید اور حوصلہ افزاء عمل ہے۔ لیکن اگر اتنے قربانیوں کے باوجود صحیح رخ اور صحیح سمت کا تعین بروقت نہیں ہوا، تو قربانیاں ہرگز کسی بھی قیمت میں رائیگاں نہیں ہونگے بلکہ وہ تاریخ میں امر ہونگے، دوسری طرف قربانیوں کا اگر لاج اور ثمر، بے ثمر ہوا تو اس کی تمام ذمہ داری بھی وقت حالات اور واقعات پر نہیں بلکہ قیادت اور جہدوکاروں کی نالائقی اور نااہلی پر سوالیہ نشان ہونگے۔
تاریخ کے بے رحم صفحات میں ایسے بے شمار تلخ حقیقت و تلخ تجربہ اور واضح مثالیں آج بھی روز روشن کی طرح تاریخ کی دریچوں میں عیاں ہیں، جن سے نظریں چرانا اور انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔
قومی آذادی کی اس وقت دستیاب تمام قوتوں کی موجودہ حالت کو لیکر ماضی پرستانہ، روایتی طرز عمل، سوچ اور رویوں کی پوری پوری بیخ کنی اور حوصلہ شکنی کے ساتھ ان کو نکال باہرکر کے خالص انقلابی و تحریکی تقاضات میں ڈھال کر آگے بڑھانا ہوگا اور مزید اپنی جنگی و سیاسی قوت و طاقت کو بڑھانا اور ایک مضبوط طاقت کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ یہ پروسس اس وقت ممکن ہوگا جب قومی طاقت اور قوت کی تشکیل میں رکاوٹ اور رخنہ اندازیوں کی جڑوں سے لیکر سرتک صحیح معنی میں علم و آگاہی ہو، پھر جاکر آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ معروضی اور موضوعی حالات پر باریک بینی سے نظر رکھنا اور ان کو مکمل سمجھنے سے خود بخود سطحی اور محدودیت کی سوچ ختم نہیں بلکہ کمزور ضرور ہونگے، کیونکہ علم و آگاہی خود ہی روایتی سوچ، نقطہ نظر اور رویوں کی ضد ہی ہوگا جب تک علم و آگاہی مسلسل عمل اور طرزعمل میں اچھے طریقے سے پیوست اور پیوند نہیں ہوگا، صرف دعویں اور دکھاوے کی حدتک ہوگا تو پھر اس کا واضح ثبوت روایتی سوچ اور غیرانقلابی رویوں کی شکل میں نمودار ہونگے، پھر ایسے سوچ اور رویے دشمن کی تحریک کے خلاف سازشوں اور حربوں سے زیادہ خطرناک ہونگے۔
صرف یہ قیادت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر جہدکار کے اوپر فرض اور ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام صورتحال کو مدنظر رکھ کر فعال اور متحرک انداز میں آگے بڑھیں، آپسی تعاون و مدد اور ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے پر انحصار کرنا ضروری ہے مگر انتظار کے حوالے سے ایک دوسرے پر دیکھنا اور انحصار کرنا سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ بلکہ ہر ایک کا کردار نبھانا وقت و حالات کی اہم ضرورت ہے
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔